ہمارے سیاستدانوں کو بارہا تجربات کے بعد یہ بات ازبر ہو جانا چاہیے کہ سیاست دو دھاری تلوار ہے۔ محتاط نہ رہے تو ا س کی کاٹ سے بچنا ممکن نہیں۔ ہر حکمران چاہتا ہے کہ وہ چاہے کرتا پھرے اسے روک ٹوک کا خطرہ نہ ہو۔ اس لیے وہ ایوب سے لے کر عمران تک سب ہمہ وقت اپوزیشن کو دبانے کی پالیسی اپناتے پائے گئے ہیں۔ اس کے برعکس اپوزیشن جو بھی ہو وہ ہر وقت حکومت کو رگیدنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔ یہ سیاست کا اپنا مزاج ہے۔ اگر اس میں شائستگی برقرار رہے تو اسے ہم حسنِ سیاست کہہ سکتے ہیں مگر اس میں ناشائستگی کا عنصر داخل ہو جائے تو یہی سیاست کا عیب بن جاتا ہے۔ بدزبانی، گال گلوچ کسی صورت حکمران ہو یا اپوزیشن کسی کو زیب نہیں دیتی۔ اسی لیے شاعر نے کیا خوب کہا تھا
لگے منہ بھی چڑھانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زبان بگڑی تھی سو بگڑی خبر لیجئے دہن بگڑا
بدقسمتی سے ہماری سیاست میں اب جس طرح بدزبانی فروغ پا رہی ہے۔ اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا۔ پہلے ذاتیات پر حملے ہوتے تھے اب بات آگے بڑھ کر خاندان اور گھر والوں تک پہنچ گئی ہے۔ یہ نہایت بدترین فعل ہے۔ سیاستدانوں کو ایسا کرتا دیکھ کر عوام کیا کریں گے ان کو کیا سبق ملے گا۔ جب رہنما ہی بدزبان ہوں گے تو عوام کو خوش گفتاری اور تہذیب کا درس وہ کس منہ سے دے پائیں گے۔
اس وقت ملکی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کو نقصان ہو گا۔ عوام پہلے ہی خوفناک مہنگائی اور بدترین بے روزگاری سے نالاں ہیں۔ سیاست اپنی جگہ مگر اپنے گھر والوں کی بھوک اور بے بسی برداشت نہیں ہوتی۔ افسوس کی بات ہے کہ 4 برسوں میں حکومت ن ے کسی کو بھی ریلیف نہیں دیا۔ اب اس کا ثمر حکومت نے ہی کاٹنا ہے۔
اب جدائی کا ثمر دیکھ کر کانپ اٹھے ہیں
کتنے مطمئن تھے ہم ہجر کی فصلیں بو کر
مثل مشہور ہے کہ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں خود حکمرانوں کے اتحادی بھی کھسکنے لگے ہیں اس کے علاوہ اِدھر اُدھر سے مانگے تانگے کے جو لعل جواہر جمع کئے گئے تھے وہ بھی بگلا بھگت والی پالیسی اختیار کر رہے ہیں یہ تو جہاں فائدہ ملے گا وہاں پر پرواز کر جائیں گے۔ اب حکمرانوں کو فصلی بٹیروں والا محاورہ سمجھ آنے میں آسانی ہو گی۔ حقیقی دوست مشیر اور ساتھی تو مفاداتی سیاست کے گرد و غبار میں نجانے کب اور کہاں کھو چکے ہیں۔
تحریک عدم اعتماد نے کھڑے اور کھوٹے کی پہچان کرا دی ہے۔ دوسروں کی بیساکھیوں پر کھڑے لوگ کبھی اپنے سہاروں کو چھوڑنے کی غلطی نہیں کرتے جو ایسا کرتے ہیں وہ دھڑام سے گر پڑتے ہیں۔ جہانگیر ترین اور علیم خان ایسے بھی برے نہ تھے۔ انہوں نے تو جی جان سے تحریک انصاف کو حکومت دلانے میں محنت کی سرمایہ لٹایا۔ مگر ایک بے جان بے زبان من پسند لیس منسٹر کہنے والے کی خاطر انہیں کھڈے لائن لگانے کی سزا اب شاید حکومت کوبھگتنا ہو گی۔
پی پی اور مسلم لیگ نون والے جو سیاسی بٹیرے اچھا دانہ پانی دیکھ کر تحریک انصاف کی منڈھیر پر آ بیٹھے تھے وہ بھی واپس اڑان بھرنے کے لیے پر تول رہے ہیں یہ مکافات عمل ہے اس لیے اس پر زیادہ پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ خود حکومت کے وزیروں اور خاص طور پر مشیروں نے ایسی حالات پیدا کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے کہ حکومت ہر طرف سے مخالفوں کے نرغے میں پھنس گئی ہے۔ ورنہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے لیے آخری سال کے چنائو کیا ہی اس لیے ہے کہ حکومت آخری سال عوام کو کوئی شاندار ریلیف نہ دے دے اور اس سے بھی بڑھ کر تحریک عدم اعتماد لانے کی وجہ عبوری حکومت کے تحت نئی حکومت کے زیر اہتمام الیکشن کرانا بھی ہے تاکہ پی ٹی آئی کے ہمدم مہربان اداروں کے سربراہوں اور عملے کو ہٹایا جائے۔ یہ جو عوام کی محبت میں مرنے کے دعوے ہو رہے ہیں۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کا رونا رویا جا رہا ہے یہ سب عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہے ورنہ 4 سال میں یہ سب کچھ کرنے کا ایسا بندوبست کیوں نہ کیا گیا جو اب کیا جا رہا ہے۔ الغرض دونوں طرف سیاست چلائی جا رہی ہے۔ کرپشن کے قصے اور مہنگائی کی مہانیوں کے نام پر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ درمیان میں عدم اعتماد کی تحریک کا کھاڑہ سجایا گیا ہے۔
اب حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ساکھ دائو پر لگی ہے۔ دیکھنا ہے کون پہاڑ تلے آتا ہے۔ عوام کو سچ کہیں تو اب اس کھیل تماشے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی وہ بے چارے روٹی پانی کے چکر میں ایسے پھنسے ہیں کہ انہیں کسی اور طرح توجہ دینے کا ہوش ہی نہیں رہا۔
٭…٭…٭