وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اپنے ساڑھے تین برس کے اقتدار میں جو چند اچھے اقدامات کئے ہیں ان میں سے ایک ’’قومی رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی‘‘ کا قیام ہے اس ادارہ کے قیام کا اعلان وزیر اعظم نے امسال بارہ ربیع الاول کو محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیؐ کے یوم ولادت کے موقع پر منعقدہ سیرت النبیؐ کانفرنس سے اپنے خطاب کے دوران کیا تھا اور بتایا تھا کہ یہ ادارہ رسول اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق اور نئی نسل کو ہادی ٔ برحقؐ کی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے مختلف اقدامات اور پروگراموں کا اہتمام کرے گا۔ وزیر اعظم نے ذاتی طور پر ’’قومی رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی‘‘ کے کام کی نگرانی اور سرپرستی کا عزم بھی ظاہر کیا تھا۔ یوں اس ادارہ کو قائم ہوئے کم و بیش پانچ ماہ ہونے کو ہیں مگر اپنے قیام سے اب تک اس کی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ سکی تھی اور یہ احساس ہونے لگا تھا کہ یہ ادارہ بھی دیگر بہت سے سرکاری اداروں کی طرح کچھ لوگوں کے روز گار کا سامان مہیا کرنے کے علاوہ کوئی عملی کارکردگی دکھانے اور اپنے قیام کے مقاصد اور اہداف کے حصول کی جانب شاید ہی کوئی پیش رفت کر سکے تاہم ہفتہ عشرہ قبل اخبارات میں چند سطری خبر شائع ہوئی کہ وزیر اعظم نے ادارہ کے سربراہ کو تبدیل کر کے ڈاکٹر انیس احمد کو یہ ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیا ہے ایک آدھ روز بعد صدر مملکت کی طرف سے اس امر کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کا یہ فیصلہ یقینا بہت مستحسن تھا جو اس امر کی نشاندہی بھی کرتا تھا کہ وزیر اعظم ’’قومی رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ کے قیام کا اعلان کر کے بھول نہیں گئے بلکہ جیسا کہ انہوں نے اس ادارہ کے قیام کے وقت کہا تھا کہ وہ ذاتی طور پر اس کے کام کی نگرانی بھی کریں گے اور سرپرستی بھی۔ تو وہ واقعی اس میں سنجیدہ تھے چنانچہ انہوں نے ادارہ کی ٹھوس کارکردگی اور پیش رفت سامنے نہ آنے پر فوری طور پر اس کے سربراہ کی تبدیلی کا قابل تحسین فیصلہ کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد بین الاقوامی شہرت کے حامل ممتاز دانشور اور متعدد دینی تحقیقی کتب کے مصنف پروفیسر خورشید احمد کے چھوٹے بھائی ہیں، وہ ذاتی طور پر جدید دور کے مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں حل کرنے کے اہم ترین شعبہ میں تحقیق اور عملی کارکردگی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی سمیت متعدد اداروں کی سربراہی اور انہیں کامیابی سے ہمکنار کرنے کی شہرت رکھتے ہیں انہیںہر طرح کی فرقہ ورانہ گروہ بندی اور محدود اختلافی سوچ سے بالا تر رہتے ہوئے اسلام کو ایک ہمہ گیر، جامع اور مکمل ضابطۂ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے، اس ضمن ان کی کئی ایک کتب شائع ہو چکی ہیںجنہیں اہل علم و فکر نے قبولیت کی سند عطا کی ہے اور تحقیق و جستجو کا جذبہ رکھنے والے اہل دانش ان سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اس پس منظر میں ’’قومی رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ کے سربراہ کے طور پر ان کا تقرر بلاشبہ ’’صحیح کام کے لیے صحیح فرد‘‘ کے انتخاب کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ادارہ کی اپنے قیام کے مقاصد کے حصول کی جانب مثبت ٹھوس اور نتیجہ خیز پیش رفت کی توقع بلاجواز نہیں ہو گی…!!!
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے ’’قومی رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘ کی ذمہ داری سنبھالنے کے چند ہی روز کے اندر ادارے کو فعال بنانے کے لیے ایک قابل ِعمل اور موثر حکمت عملی تیار کر کے وزیر اعظم کو پیش کر دی ہے اسی سلسلے میں ایک تعارفی تقریب وفاقی دارالحکومت میں منعقد ہوئی جس میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ فحاشی سے خاندانی نظام تباہ ہوجاتا ہے، پردہ محافظ ہے۔ان کا کہنا تھاکہ اقتدار میں آکر اندازہ ہوا کہ حکومت کئی چیزیں ٹھیک نہیں کر سکتی، اخلاقی تربیت کا آغاز بنیادی سطح سے کرنا ہوگا،حق کا راستہ آسان نہیں مشکلات سے بھرپور ہے،میں اسلامی اسکالر نہیں دین کی طرف اپنے تجربے سے آیا ہوں کیونکہ میں نے دونوں طرح کے کلچر دیکھے، مغربی معاشرے کو قریب سے دیکھ کر تجزیہ کیا، سیرت النبیؐ پڑھی تو میرے اندر تبدیلی آئی،قانون کی حکمرانی قائم کرنا جہاد ہے کیوں کہ آپ کا مقابلہ مافیا سے ہے، عمران خان کے بقول اسی لیے ہمیں اپنے بچوں کو سیرت النبی ؐپڑھانی چاہیے تاکہ برائی کرنے والوں کو قوم خود تنہا کردے،وزیر اعظم نے کہا کہ میں آج بڑا خوش ہوں کہ 3 مہینوں بعد اس اتھارٹی کے قیام کا تصور واضح ہوا ہے، اتھارٹی کے چیئرمین ڈاکٹر انیس کا خاص طور پر شکر گزار ہوں اور انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے رحمت اللعالمین ؐاتھارٹی کا مکمل روڈ میپ پیش کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھاکہ اس اتھارٹی کے قیام کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ ہماری نوجوان نسل اور بچوں کو سمجھ ہی نہیں ہے کہ یہ ملک کیوں بنا تھا، ہمارے نبی ؐکا پیغام کیا تھا، اور ان کی پیروی کا حکم قرآن میں کیوں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں آنے سے بھی پہلے مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ہمیں اسکول میں یہ چیزیں نہیں پڑھائی جاتیں، مجھے کبھی اسکول میں دینیات اور اسلامیات کی کلاس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ میں کیوں رسولؐ کے راستے پر چلوں، ہمیں رسولؐ سے محبت اور ریاست مدینہ کا تصور نہیں سمجھایا گیا،جب میں اسکول میں تھا تو پاکستان کونئی نئی آزادی ملی تھی، تب ہمیں اسکول میں پڑھایا جاتا تھا کہ برطانیہ اور مغربی جمہوریت کے راستے پر چلو تو کامیابی ملے گی۔عمران خان نے کہا کہ مدینے کی ریاست کے 2 اصول تھے، عدل و انصاف اور فلاحی ریاست، وہاں لوگوں کی شخصی تربیت کی گئی اور پھر ان ہی لوگوں نے دنیا کی امامت کی۔
وزیر اعظم کے منصب کا تقاضا ہے کہ اب وہ تقاریر سے زیادہ عملی اقدامات اور کارکردگی پر توجہ دیں تاکہ اقتدار سے محرومی کی صورت میں انہیں پچھتاوے کا سامنا کرنا نہ پڑے ۔…!!!
٭…٭…٭
قومی رحمت اللعالمین اتھارٹی ۔۔۔ مستحسن پیش رفت
Mar 11, 2022