اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے بعد گویا ’’دبستان‘‘ کھل گیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن اپنی اپنی کامیابی کے دعوئوں کے ساتھ ساتھ اپنے حامی ارکان کی تعداد میں اضافہ کرنے کی کوششوں میں تو مصروف ہیں ہی لیکن اسکے ساتھ لہجے میں تلخی‘ اخلاقیات سے عاری اور غیرشائستہ انداز تخاطب کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے فریقین میں سیاست کے میدان میں صحت مند مقابلے کے برعکس ایک بدمزہ سی مہم کا آغاز ہو گیا ہے جس نے ملکی سیاسی ماحول کو مکدر بنا دیا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان اس طرز گفتگو میں پیش پیش ہیں‘ وہ اپنی تقاریر میں اپوزیشن میں شامل اپنے مخالف سیاست دانوں کیخلاف جس قسم کی زبان استعمال کر رہے ہیں اور جس قسم کا لہجہ اپنائے ہوئے ہیں‘ وہ اس منصب کے ہرگز شایان شان نہیں۔ وہ پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ نواز اور جمعیت علماء اسلام (ف) کی قیادت کیخلاف دشنام طرازی پر اتر آئے ہیں جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت میں برسراقتدار جماعت اور حزب مخالف میں نظریاتی اختلافات معمول کی بات ہے۔ پالیسیوں میں اختلافات ہونا بھی کسی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ تمام جمہوری ممالک میں اس قسم کے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں جب حکمران جماعت اور اسکے مخالفین میں بحث و مباحثہ اور گرما گرمی ہوتی ہے۔ اسمبلی کا پلیٹ فارم ہو یا عوامی جلسہ‘ ہر دو جگہوں پر متحارب گروپ ایک دوسرے کیخلاف تقاریر کرتے اور اپنے اپنے موقف کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جمہوری سیاست کا حسن ہے اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہوتا اور معاملات اسی طرح آگے بڑھتے رہتے ہیں لیکن جب منطق،دلیل اور اصول کی جگہ الزام تراشی‘ اتہام اور پھر اس سے بڑھ کر گالی گلوچ لے لیتی ہے تو پھر معاملات بگڑنے میں دیر نہیں لگتی۔ یہ درست ہے کہ بعض ممالک میں اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران حکومتی اور مخالف گروپوں میں سرپٹھول کے واقعات بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ خود ہمارے ہاں بھی اکثر اسمبلی اجلاسوں میں مسودہ ہائے قوانین کو پھاڑنے، سپیکر کے ڈائس کی طرف اچھالنے اور بجٹ کی بھاری بھرکم کتابوں کو ایک دوسرے کی طرف پھینکنے ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ لہٰذا یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر حیرت کا اظہار کیا جا سکے تاہم یہ سارا ناپسندیدہ عمل یا ردعمل ارکان اسمبلی تک ہی محدود رہتا ہے۔ قائد ایوان یا قائد حزب اختلاف اس قسم کا رویہ اختیار نہیں کرتے اور ان سے ایسا رویہ اختیار کرنے کی توقع بھی نہیں کی جانی چاہیے۔ البتہ جب حکومت کا سربراہ یا ملک کے سب سے بڑے آئینی منصب پر فائز شخصیت اپنی تقاریر‘ بیانات اور گفتگو میں عامیانہ زبان استعمال کرے‘ دھمکی آمیز اور گلی محلے کی سطح کے طرز تخاطب سے اپنے مخالفین کے سرعام لتے لے تو اس کو کسی طور بھی سراہا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ سربراہ مملکت یا اعلیٰ ترین منصب پر فائز شخصیت عام آدمی کیلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ کبھی بھی عامیانہ بات نہیں کریگی۔ مخالفین کے ساتھ بھی توتکار سے گریز کریگی اور ایسا انداز گفتگو اپنائے گی کہ مخالف بھی ’’ گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہو ‘‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ خود وزیراعظم صاحب اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے شائستگی‘ تہذیب اور اخلاقیات کا دامن جھٹک دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اس منصب کے وقار پر بھی حرف آتا ہے جو آئین و قانون کی رو سے بالاتر منصب ہے۔گزشتہ دو روز کے دوران وزیراعظم نے آصف علی زرداری‘ میاں نوازشریف‘ میاں شہبازشریف اور مولانا فضل الرحمان کے بارے میں جو کلمات ادا کئے اسکے جواب میں انکے مخالفین بھی انکے حوالے سے ایسا ہی لب و لہجہ اختیارکئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وزیراعظم کے ایسے کلمات سے ’’جواب آں غزل‘‘ کا جو سلسلہ شروع ہو گیا ہے‘ خدا جانے وہ کہاں جا کر تھمے گا۔ کیونکہ برائی ہمیشہ تیز رفتاری سے پھیلتی ہے۔ یہ خدشہ موجود ہے کہ گالم گلوچ اور پھکڑ پن قائدینِ محترم سے انکے وفادار کارکنوں میں بھی در آئیگا اور اس قسم کی صورتحال جب پورے ملک اور معاشرے میں پھیل جائے تو وہ انارکی کو جنم دیتی ہے جس سے بچنا ناممکن ہوتا ہے۔ قوم اس سے پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون میں اس قسم کے مناظر دیکھ چکی ہے اور انجام کار پوری قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ اسی حکومت نے گزشتہ ماہ ’’ پیکا ‘‘ کے نام سے صدارتی فرمان جاری کیا ہے جس کا مقصد ہی جھوٹی خبر ، بیان یا کسی کی ذاتی زندگی پر گند اچھالنے کے مکروہ عمل کی روک تھام کرنا ہے ۔ ایسا عمل کرنے والے کو پانچ سال تک قید کی سزا بھی دی جاسکے گی ۔ اس آرڈی نینس کے تناظر میں جناب وزیر اعظم اور ان کے مخالفین کی بیان بازی کو کیا نام دیا جائے ۔
ہمارے قومی سیاسی قائدین بہرحال اپنی اپنی ادائوں پر غور کریں‘ اور ایک دوسرے کی مخالفت میں اس حد تک آگے نہ جائیں کہ اختلافات دشمنی میں بدل جائیں اور جس سسٹم کے بل بوتے پر وہ اپنی اپنی سیاست چمکائے ہوئے ہیں‘ خدانخواستہ وہی کہیں زمین بوس نہ ہو جائے اور صرف پچھتاوہ باقی رہ جائے۔ اس لئے ہماری حکومت اور حزب اختلاف دونوں سے گزارش ہے کہ وہ حالات کو مزید بگڑنے سے بچائیں اور اپنے اپنے سیاسی اہداف کے حصول کیلئے آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد جاری رکھیں۔ ایک دوسرے کی ذات کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔ اخلاق کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیں اور شائستگی و تہذیب سے اپنا مافی الضمیر بیان کریں۔ اسی میں سب کی بہتری اور سسٹم کی بقا کا راز مضمر ہے۔