کراچی(سٹی نیوز)سینئر سیاستدان سید ضیا عباس کی نئی کتاب ’’ہم پاکستان سے ہیں پاکستان ہمارا ہے‘‘ شائع ہوگئی جس سے انہوں نے تاریخ کے دریچوں سے بھٹو شہید کے حوالے سے اہم باتیں تحریر کی ہیں ذوالفقار علی بھٹو مری ریسٹ ہاوس سے رہا ہوئے ، رات انہوں نے اسلام آباد میں گزاری۔اگلی صبح انہیں لاڑکانہ روانہ کر دیا گیا۔ان کے ہمراہ ممتاز بھٹو بھی تھے۔بھٹو صاحب کے لاڑکانہ پہنچنے پر غلام مصطفی جتوئی اور راقم ( سید ضیائ عباس ) ان سے ملنے روانہ ہوئے۔غلام مصطفی جتوئی اپنی گاڑی میں جب کہ میں بھٹو صاحب کے دونوں صاحبزادوں میر مرتضی بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو کے ہمراہ المرتضی پہنچا ، بھٹو صاحب نے اپنے دونوں صاحبزادوں کو پیار کیا اور انہیں کہا کہ وہ اندر جائیں چونکہ ضیائ عباس صاحب آج شام ہی کراچی چلے جائیں گے لہذا ان سے مجھے کچھ ضروری باتیں کرنی ہے۔بھٹو صاحب سے میری ملاقات کے دوران غلام مصطفی جتوئی بھی موجود تھے۔اس موقع پر ملک کی سیاسی صورتحال سمیت مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔میں نے بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ کراچی آئیں تو ٹرین کی بجائے جہاز سے سفر کریں۔بھٹو صاحب نے میری اس تجویز سے اتفاق کیا لیکن کچھ روز بعد وہ جہاز کے بجائے ٹرین کے ذریعے کراچی پہنچے۔کینٹ اسٹیشن پر تقریبا ایک لاکھ کے مجمعے نے ان کا استقبال کیا۔اس موقع پر پولیس نے استقبالیہ ہجوم پر زبردست لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔جس سے صورتحال خراب ہوگئی اور بھٹو صاحب بمشکل اپنی رہائش گاہ 70 کلفٹن پہنچے۔جہاں سے انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ضیائ عباس صاحب آپ ملنے آئیں چند ضروری باتیں کرنی ہیں۔ اگلی صبح میں ان کے گھر پہنچا تو انہوں نے کہا کہ میں عمرہ اور روضہ رسول کی زیارت کے بعد میڈیکل چیک اپ کیلئے لندن جانا چاہتا ہوں۔آپ میرا یہ پیغام سندھ کے مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل جہاں زیب ارباب کو پہنچا دیں۔میں نے یہ پیغام ان تک پہنچا دیا۔اسی شام جہازیب ارباب 70 کلفٹن پہنچے جہاں ان کی بھٹو صاحب سے طویل ملاقات ہوئی۔بھٹو صاحب نے بتایا کہ وہ عمرہ اور روضہ رسول کی زیارت کے بعد میڈیکل چیک اپ کیلئے لندن میں چار چھ ماہ قیام کریں گے ان کا یہ پیغام جنرل ضیائ الحق تک پہنچایا گیا اور معاملات طے ہوگئے۔اسی دوران بھٹو صاحب کا مجھے فون آیا کہ فورا میرے پاس پہنچو۔ میں گیا تو انہوں نے کہا کہ میں خود جنرل ضیائ الحق سے بات کرنا چاہتا ہوں۔تم اس کا انتظام کرسکتے ہو۔میں نے ان کی جنرل ضیائ الحق سے بات کرائی۔ فون پر گفتگو کے بعد جنرل ضیائ الحق نے بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ پنڈی آئیں۔ آپ کو آپ کی گاڑی رسیو کرے گی۔آپ اپنے ہمراہ اپنا پاسپورٹ بھی لیتے آئیں معاملات طے ہوگئے۔لیکن بھٹو صاحب براہ راست پنڈی جانے کے بجائے لاہور ہوتے ہوئے جانے کا فیصلہ کیا۔لاہور ایئرپورٹ پر بھٹو صاحب کے استقبال کے لیے لاکھوں افراد جمع تھے۔ایئرپورٹ پر بھٹو صاحب کے استقبال کے لئے آئے ہوئے مجمع نے مولانا شاہ احمد نورانی اور عبدالستار خان نیازی کے ساتھ بدتمیزی کی۔جس پر جنرل ضیائ الحق نے بھٹو صاحب سے سخت لہجے میں بات کی اور انہیں وارننگ دی اور مولانا شاہ احمد نورانی سے معذرت کی۔اس واقعے کے بعد صورتحال ایک دم بدل گئی اور دونوں کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی۔ لگتا ایسا ہے کہ بھٹو صاحب کے گرد چند ایسے افراد تھے جو دونوں کے درمیان مفاہمت نہیں چاہتے تھے۔ بھٹو صاحب اپنے آخری دور میں خود غرض اور دوہری وفاداریاں رکھنے والے لوگوں میں گھر گئے تھے جو چاپلوسی کرکے انہیں ہر وقت گمراہ کرتے رہتے تھے بھٹو جیسی عظیم شخصیت اور سیاسی مستقبل کو انجام تک پہنچانے میں انہی کا ہاتھ تھا۔ ہم پاکستان سے ہیں پاکستان ہمارا ہے۔سید ضیائ عباس کی نئی کتاب سے اقتباس۔