خورشید قصوری


یہ 1980ءکے اوائل کاقصہ ہے ۔تحریک استقلال اپنے پورے جوبن پر تھی اورتب ملک بھرکی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی ۔تحریک کی نیشنل کونسل جس کے ارکان کی تعداد400کے لگ بھگ ہوگی کااہم اجلاس پشاور یونیورسٹی روڈ پر تحریک استقلال کے صوبائی صدر سید منیر شاہ کی رہائش گاہ پر ہوا۔یہ اجلاس اس لئے اہم تھا کہ اس میں تحریک ،کے مرکزی راہنماﺅں کا دوسال کے لئے انتخاب ہوناتھا۔جنرل سیکرٹری کے اہم عہدے کے لئے مشیراحمد پیش امام اور آصف فصیح الدین وردگ امیدوار تھے۔اس سے قبل ایک ایساواقعہ پیش آچکا تھاجس نے اس اجلاس کوبڑا ہنگامہ خیز بنادیا۔آصف وردگ صاحب پر الزام تھا کہ انہوں نے تحریک استقلال کے ضلعی انتخابات میں دھاندلی کرکے ووٹران کی جعلی فہرستیں تیارکرلی ہیں۔یہ الزام تحریک استقلال کی سنٹرل کمیٹی میں زیر بحث لایاگیاتوطویل بحث کے بعد درست ثابت ہوا۔ان حالات میں بہت سے لوگوں کی رائے تھی کہ اگر وردگ صاحب اخلاقی طور پر جنرل سیکرٹری کے عہدے کیلئے انتخابات سے دستبردار نہیں ہوتے تو تحریک کے سربراہ ایئر مارشل (ر)اصغر خاں ان کواس عہدے کے انتخابات کے لئے نااہل کردیں بصورت دیگر ہم انتخابات کے روز بھرپوراحتجاج کریں گے۔انتخابات سے ایک روز قبل پشاور کے گرین ہوٹل میں رات گئے تک تحریک استقلال کے راہنماﺅں کا اجلاس ہوتا رہا۔جس میںمشیر پیش امام ،چوہدری اعتراز احسن ،ڈاکٹر خالد رانجھا،ملک حامد سرفراز ،چوہدری صفدرعلی بندیشہ،چوہدری طارق عمر ،منظورگیلانی اورمیرے علاوہ دیگر بہت سے ہم خیال لوگوں نے شرکت کی۔طے ہوا کہ کل جونہی نیشنل کونسل کا اجلاس شروع ہوتو وردگ صاحب پر اعتراض کردیاجائے ۔مگر اعتراض کرنے میں پہل کون کرے؟ یہاں آکرمعاملہ الجھ گیاکیوں کہ پہل کرنے کوکوئی بھی تیارنہ ہوا۔بالآخر یہ کام میرے سپرد ہوا۔یہ بھی سکیم بنی کہ اگر کسی وجہ سے میرااعتراض نہ سناگیایا مجھے بٹھا دیاگیاتو میرے بعد اعتراز احسن یہ فریضہ سرانجام دیں گے۔ان کی بھی سنی گئی تو پھر ڈاکٹر خالد رانجھاان کے بعد خود پیش امام اور آخر میں ملک حامد سرفراز اس مسئلے کولے کرآگے بڑھیں گے ۔چنانچہ اگلے روز جونہی اجلاس شروع ہواتو تلاوت کے فورا بعد میں اٹھ کھڑا ہوااور وردگ صاحب پر سخت الفاظ میں اعتراض جڑدیا۔اصغر خاں صاحب نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی مگر میں اپنی بات پہ ڈٹا بلکہ اڑا رہا تو ایئر مارشل صاحب نے جھاڑ پلاکرمجھے بٹھایا دیا۔مگر میں مطمئن تھا کہ اب پروگرام کے مطابق چوہدری اعتراز احسن اٹھ کر احتجاج کو آگے بڑھائیں گے مگر وہاں مکمل خاموشی رہی ،شائد انہوں نے میرے "انجام"سے سبق حاصل کرلیاتھا پھر ڈاکٹر خالدرانجھا نے کچھ بات کرنے کی کوشش کی توانہیں بھی ایئر مارشل صاحب نے چپ کرادیا۔اس کے بعدپروگرام کے مطابق آصف وردگ کے مقابلے میں جنرل سیکرٹری شپ کے امیدوار مشیر احمد پیش امام نے اپنے کاغذات نامزدگی پھاڑ کرپھینک دیئے ۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ پیش امام صاحب حضرت قائد اعظم کے سیکرٹری رہے تھے۔اب آخرمیں ملک حامد سرفراز اٹھے جوسیاسی تجربات کانچوڑ تھے۔ملک صاحب آھستہ آھستہ چلتے ہوئے سٹیج تک پہنچ گئے۔سٹیج تک پہنچنا ہی کامیاب حکمت عملی ثابت ہوئی ۔ملک صاحب نے پرزور خطاب کیاتو ماحول بدل گیااور اجلاس ملتوی کردیا گیا۔اورکھانے کے وقفے کااعلان بھی دیاگیا۔ کھانے کے دوران ہی اصغر خاں میرے پاس تشریف لائے اورپیاربھری گفتگو کرکے میری دلجوئی کی۔اس کے بعد انہوں نے سنٹرل کمیٹی کااجلاس طلب کرلیا۔سنٹرل کمیٹی کے فیصلے کے مطابق اصغر خاں نے مشیرپیش امام اور آصف وردگ کے مقابلے میں اپنے پینل کااعلان کردیا۔جس کے نتیجے میں خورشید قصوری بلا مقابلہ جنرل سیکرٹری اور حسین شہید سہروردی صاحب کی نواسی بیرسٹر شاہدہ جمیل سیکرٹری اطلاعات منتخب ہوگئیں۔خورشیدقصوری کو بطور جنرل سیکرٹری تحریک استقلال بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا جن میں سب سے مشکل مراحل ضیاءالحق کی آمریت کا مقابلہ کرنا اور تحریک استقلال کے دیگر راہنماﺅں اورکارکنوں کواس آمریت کے خلاف منظم کرنا تھا۔انہوں نے اپنے دورمیں اپنی صلاحیتوںکو خوب استعمال کیا اور تحریک کو ہر انداز میں منظم اورمربوط کیا۔83ءمیں وہ میرے ساتھ سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں بھی رہے۔بہت جگر داری سے جیل کاٹی۔ انکے والد گرامی میاں محمود علی قصوری کاخاندان ہی وکلاءپر مشتمل تھا۔خورشید قصوری نے بیرسٹری کاامتحان پاس کرنے کے باوجود پیشہ وکالت اختیار کرنے کی بجائے زیادہ توجہ اپنے "بیکن ہاﺅسسکول سسٹم "کی ترویج وترقی اورجدید انداز کے نظام تعلیم سے لوگوں کوروشناس کرانے میں صرف کی ۔دھن کے پکے آدمی تھے ،یوں دیکھتے ہی دیکھتے بیکن ہاﺅس سکول ملک بھر میں پھیل گیااور پہلی بارانہوں نے ایک جدید انداز کے نظام تعلیم سے آگاہی دی۔خورشید قصوری صاحب کی زندگی کاسیاسی پہلو بہت مثبت اورروشن رہا۔جب نواز شریف نے پارلیمان کے ذریعے "امیرالمومینین"بن کر اختیارات کا ارتکاز اپنی ذات اور اپنے خاندان میں کرنا چاہا تون لیگ کا ممبر پارلیمان ہونے کے باوجود انہوں نے اس طرح ڈٹ کراس کی اس قدرمخالفت کی کہ نواز شریف کی اس منحوس سکیم کو ناکامی کامنہ دیکھنا پڑااوروہ آج تک اس زخم کو چاٹ رہے ہیں ۔
پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا اوراس کے نتیجے میں انتخابات ہوئے تو خورشید قصوری قصور سے ممبرقومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔اورانہیں پاکستان کاوزیر خارجہ مقررکردیا گیا۔وہ پانچ سال تک ملک کے وزیر خارجہ رہے ۔پرویز مشرف کو انڈیا ، امریکہ اورطالبان سمیت بہت سے چیلنج درپیش رہے جن کا مقابلہ وزیر خارجہ کے درست مشوروں کے بغیر ممکن نہ تھا ۔یوں قدم قدم پر انہوں نے اپنی نپی تلی آراءسے ملک کو بہت سے مسائل سے نکال کرایک سمت میں ڈالا۔جب انہوں نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تو ان کے بہی خواہوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ۔آج اگر وہ عمران خاں کے اعلی مشیروں میں ہوتے توتحریک انصاف کو بہت فائدہ رہتامیری خوش قسمتی ہے کہ میراتعلق میاں محمود علی قصوری، خورشید قصوری ،ان کے بھائی عمر قصوری مرحوم اور بختیار قصوری سے بہت اچھا رہا۔مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اب ان کی خیرخبر صرف میڈیا کے ذریعے ہی معلوم ہوتی ہے۔میاں محمود علی قصوری اورعمر قصوری یہ دنیا چھوڑ گئے ۔ بختیار قصوری کہاں ہوتے ہیں؟کچھ پتہ نہیں رہے خورشید قصوری تو غالبا83ءمیں جیل سے رہائی کے بعد ان سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔وہ ملک کا سیاسی سرمایہ ہیں۔ایک دانشور اور انسان دوست ہیں ۔سنا ہے کبھی کبھی اپنے ہاں ایسے ہی لوگوں کی محفل آرائی کرتے ہیں ۔اللہ ان کی عمر دراز کرے کہ ملک کو ایسے لوگوں کی بہت ضرورت ہے۔ 

سلیمان کھوکھر-----چہرے

ای پیپر دی نیشن