شہزادہ چارلس اور انکی اہلیہ کمیلا پارکر کو کولچیسٹر شہر کے دورے پر مظاہرین کے طنزیہ نعروں کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ مظاہرین نے میگافون پر نعرے لگائے کہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ کیوں ضائع کیا جا رہا ہے۔ ایک پلے کارڈ پر تو یہ نعرہ بھی درج تھا کہ ”یہ ہمارا بادشاہ نہیں“۔
یہ ہوتی ہے جمہوریت اور اسے کہتے ہیں آزادیِ اظہار کہ ایک بادشاہ کو بھی قوم نے اپنا پیسہ ضائع کرنے پر آڑے ہاتھوں لے لیا۔ ابھی تو چارلس نے کرپشن نہیں کی‘ صرف عوام کے ٹیکس کا پیسہ ضائع کیا ہے ‘ اگریہ پیسہ ہضم کرلیا جاتا تو احتجاج کی نوعیت شاید کچھ اور ہوتی۔ لیکن پھر بھی بادشاہ سلامت کا ظرف دیکھئے کہ انہوں نے عوام پر کسی قسم کے تشدد کا حکم نہیں دیا۔ ہمارے ہاں پیسہ ضائع کرنے کا تو تصور ہی نہیں‘ سیدھا سیدھا ہڑپ کیا جاتا ہے۔ اور اگر اس پر احتجاج کیا جائے تو اپنی شان میں ذرا سی گستاخی برداشت نہیں کی جاتی۔ احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج‘ آنسو گیس اور واٹر کینن کا بھی بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر خبریں ایسی سامنے آتی ہیں کہ بندہ کنفیوژ ہو کر رہ جاتا ہے کہ غلطی کس جانب سے ہوئی ہے۔ دونوں جانب سے ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ بالآخر معاملہ کمیٹی کے سپرد کردیاجاتا ہے جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ معاملہ ”ٹائیں ٹائیں فش‘۔
ملک کے موجودہ سیاسی جھگڑوں میں بھی بلیم گیم عروج پر ہے‘ پوری قوم کنفیوژ ہے اور یہ انداہ لگانے سے قاصر ہے کہ کون سچا ہے اور کون دروغ گوئی کررہا ہے۔ انتخابات کی آمد آمد ہے‘ دیکھتے ہیں ہماری سیاسی قیادتوں کے یہ جھگڑے انتخابات کی نوبت آنے بھی دیتے ہیں یا نہیں۔ بہرحال شہزادہ چارلس کو جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ اس عوامی ردعمل پر ضرور کچھ اچھا کرنے کا سوچیں گے۔انہیں بادشاہ بنے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے کہ انہیں عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اسے کہتے ہیں ”سر منڈاتے ہی اولے پڑے“۔
٭....٭....٭
میکسیکو میں بیکرز نے 20 ہزار 669 روٹیوں کے ٹکڑوں سے دو ہزار 222 مربع فٹ کے رقبے پر پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا موزائیک بنانے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔
یہ کیسا مذاق ہے‘ کہیں روٹی کھانے کو نہیں مل رہی‘ کہیں اسکے ٹکڑوں سے دنیا کے سب سے بڑا موزائیک بنایا جا رہا ہے۔ میکسیکو والوں کو روٹی کی کیا قدر‘ یہ تو ان بے چاروں سے پوچھی جائے جو کئی کئی دن فاقے کاٹتے ہیں۔ خدا خیر کرے‘ ہمارے ملک کو جس طرف دھکیلا جا رہا ہے‘ کوئی بعید نہیں عام آدمی کو روٹی میسر ہی نہ ہو۔ بہت سوں کیلئے تو روٹی اب بھی نایاب ہو چکی ہے۔ ایک وقت تھا جب دو روپے میں روٹی مل جایا کرتی تھی اور غریب روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر لیتا تھا‘ اب اسکے نرخ 15 روپے سے بھی تجاوز کر گئے ہیں جبکہ نان تو خود کو نہ جانے کیا سمجھنے لگا ہے جس تک پہنچنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں رہی۔ ہماری سیاسی قیادتیں عوام کے روٹی روزگار کا بندوبست کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے ساتھ الجھی ہوئی ہیں جبکہ تیسرا (آئی ایم ایف) اپنی شرائط پر ہمارے ہی ہاتھوں ہمارے گھر سے سب کچھ لے جا رہا ہے اور ہم اب بھی خوشی سے نہال ہو رہے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کو پیشگی اقدامات سے مطمئن کر دیا ہے‘ چند روز میں معاہدہ بھی ہو جائیگا۔ خدا خیر کرے‘ اس معاہدہ کے بعد قوم کے جسم پر لنگوٹی بھی رہتی ہے یا نہیں۔
٭....٭....٭
چور مسجد کے غلوں کا صفایا کر گئے۔ جاتے ہوئے یہ صاحب ذوق چور لکھ کر گئے کہ یہ ہمارا اور خدا کا معاملہ ہے کوئی درمیان میں نہ آئے اور ہمیں تلاش نہ کرے۔
چلیں اس عبارت کے بعد پولیس تو اس جھجٹ میں پڑنے سے بچ گئی۔ اب نہ ایف آئی آر کٹے گی اور نہ چوروں کو تلاش کیا جائیگا۔ بے شک مسجد اللہ کا گھر ہے‘ لیکن اسکی دیکھ بھال تو دنیاوی انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہے جو اتنے بے نیاز تھے کہ کوئی بھی آکر پنکھے وغیرہ اتار کر لے جائے۔ بعض بدذوق چور تو مسجد غسل خانے سے لوٹے اور نلکے کی ٹوٹیاں تک اتار کر لے جاتے ہیں۔ اسی لئے اب اللہ کے یہ گھر صرف نماز کے اوقات میں کھلتے ہیں جس کے بعد ان پر تالے ڈال دیئے جاتے ہیں۔
پرانے وقتوں میں دور دراز سے آئے مسافر مسجدوں میں قیام کیا کرتے تھے اور اہل محلہ انکے کھانے پینے کا بھی بندوبست کیا کرتے تھے‘ اب مسجدیں نماز کی ادائیگی تک محدود ہو گئی ہیں اور وہاں بھی نمازیوں کی تعداد پوری نہیں ہو پاتی۔ پہلے شاید اسی لئے خانہ خدا کو سادہ رکھا جاتا تھا صرف جامع مساجد کی آرائش و زیبائش کی جاتی تھی۔ اب تو ہر مسجد میں نمازی ہوں نہ ہوں آرائش و زیبائش کمال کی ہوتی ہے۔ شاید عالیشان آرائش دیکھ کر ہی چوروں کے دل میں خود بخود چوری کا خیال در آتا ہے۔ ویسے جب معاشرے کے دولت مند طبقے صاحب ثروت لوگ غریبوں مظلوموں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہیں گے انہیں اپنی بے پناہ دولت سے فائدہ نہیں دیں گے تو پھر چوریاں اور ڈکیتیاں ہوتی رہیں گی۔ اسی لئے اسلام میں ضرورت سے زیادہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ جو رب کو بہت پسند ہے۔ کیونکہ اس سے معاشرے کے محروم طبقوں کی مدد ہوتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ سے وہ تجارت ہے جس میں نفع ہی نفع ہے نقصان کوئی نہیں۔
٭....٭....٭
جنوبی افریقہ کی ایک دلچسپ ویڈیو تیزی سے مقبول ہو رہی ہے جس میں کنویں کے پاس آرام سے بیٹھی شیرنی پر نوجوان ہاتھی غصیلے انداز میں چنگھاڑتا ہوا اپنی سونڈ میں پانی بھر کر اس پر بوچھاڑ کرکے بھگا رہا ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ لگتا یہی ہے کہ اس ہاتھی نے یہ طریقہ کار ہمارے سکیورٹی اداروں سے سیکھا ہے جو احتجاج کرنے والوں پر واٹر کینن سے پانی کی بوچھاڑ کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ہاتھی جسامت کے لحاظ سے شیر کے مقابلے میں بہت بڑا جانور ہے۔ اصولی طور پر تو جنگل کا بادشاہ اسے ہونا چاہیے مگر شیر نے اپنی خوفناک دہاڑ اور خون خرابہ کرکے جنگل میں اپنی دھاک بٹھائی ہوئی ہے جس سے ہر جانور خوفزدہ رہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے جن میں معمولی جانوروں نے متحد ہو کر شیر کو بھاگنے پر مجبور کر دیا ۔ تحقیق کے مطابق شیر ایک سست الوجود جانور ہے جو اپنے شکار کیلئے بھی زیادہ تگ و دو نہیں کرتا بلکہ اسکی مادہ جو شکار کرکے لاتی ہے‘ شیر اسے ہی ”تناول فرماتا“ ہے۔ لہٰذا دنیا ہی اسے جنگل کا بادشاہ تصور نہیں کرتی، وہ خود بھی اپنے آپ کو جنگل کا حقیقی بادشاہ سمجھ بیٹھا ہے۔ شیرنی کو بھگانے کا کام چونکہ اکیلے ہاتھی نے کیا ہے ‘ اس لئے یہ واقعہ شیر برادری کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔