فہمیدہ کوثر
قدیم یونان کی ریاستیں ایتھنز اور اسپارٹا آپس میں برسرپیکار رہتی تھیں۔ اس دور کامؤرخ برلن لکھتا ہے کہ لیکن قومی یکجہتی کے معاملے پر یکسو ہوجاتی تھی اس دور کا مورخ برلن یہ بھی لکھتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ جب ان میں قومی تشخص اجاگر ہوا تو انکے معاشی اور سیاسی حالات نے بھی کروٹ لی آسٹریلیا کی قدیم دور کی ترقی اور خوشحالی بھی قومی تشخص سے جڑی ہوئی ہے ہمارے لئے جو مسئلہ سوہان۔ روح بنا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ قومی تشخص کیا باہر کے ممالک ہمارے بارے میں کیاکہتے ہیں اس سے بینیاز ہوکر ہم ذاتی مفادات میں الجھ کر رہ گئے ہیں کسی راہنماسے ایک بار سوال کیاگیاکہ قومی تشخص کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں تو وہ بولے کہ کسی ملک کے سیاسی اور غیر سیاسی کلچر میں موازنہ کرکے سیاسی کلچر کافروغ ہی قومی یک جہتی اور قومی تشخص کوفروغ دیتاہے اچھا یہ بتائیں کہ آپ موازنہ کیسے کرتے ہیں تو بولے دیکھیں نا پچھلی حکومت نے اپنی غیر سیاسی کارکرگی سے مہنگائی مین اضافہ کیا ہم اسکے توڑ کے لئے کمرتوڑ کوششیں کررہے ہیں۔ لیکن مہنگائی میں تودس گنا اضافہ ہوجکا ہے اور عوام کی اس مہنگائی نے کمر توڑ دی ہے بات دراصل یہ ہے راہنما بولا اب ہمارے پاس الہ دین کاچراغ تونہیں کہ ہم چٹکیوں میں مسائل حل کردیں انکی باتوں سے ایک بات تو واضھ ہوگئی کہ ہرحکومت اپنیمنشور میں جوباتین شامل کرتی ہے انکوپوراکرناہمیشہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور اس سے جمہوریت داغدار ہوتی ہے ایک مزاح نگار نے لکھا کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں ایک صاحب سے کسی نے پوچھا آپ کی شر ٹ پر داغ ہیں وہ صاحب مسکرائے اور بولے کوئی بات نہیں مٹ جائیںگے کیسے ان سے پوچھا گیا تو بولے کسی اچھے ڈٹرجنٹ سے۔ سنیے آپ کے اوپر کرپشن کے داغ ہیں وہ صاحب پھر مسکرائے اور بولے یہ بھی مٹ جائیں گے وہ کیسے اس سوال پر وہ بڑے تحمل سے بولے ضمیر کی موت سے ، ایک دانشور نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ باہر کی دنیا میں اس جشن اورمسرت کاکیافائدہ جب ذات کے اندر ضمیرکی عدالت میں ہرروز مجرم قرار پاتے ہوں لہذا ہرقسم کے داغ چھپانے کے لئے ضمیرکی موت ضروری ہے نہ رہے بانس نہ بجے بانسری کہاتو یہ بھی جاتا ہے کہ جب روم جل رہاتھا نیرو بانسری بجارہا تھا نہیں نہیں یہ کہاوت آپ کے لئے نہیں چیخ وپکا آہ فغاں تو آ? دن کی بات ہے بقول شاعر
گھر جلا ہے نجانے کسکا ہے
میری جانب ہی کیوں دھواں آئے
ہمین تو آج تک یہ بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ ہم انسان ہیں یابھیڑ بکریاں جتنے بھی شیر تھے وہ ایوانوں می چلے گئے اب وہ انساف کیسے ہوگا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے اب سب کے اپنے اپنے گھاٹ اپنا اپنا پانی ۔ہمیں تو یہ بھی معلوم نہین کہ ہم پاکستان کے شہری ہیں یا الجزائر سے لے کر انڈونیشیا تک وہ امت مسلمہ ہیں جو اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور ہماری حمیت کا یہ عالم ہے کہ ہم ہم کشکول اٹھائے کب سے دربدر بھٹک رہے اؤل تو کوئی اس کشکول میں کچھ ڈالنے کے لئے تیار نہیں اگر کوئی وقتی طور پر آکسیجن کے طور پرڈ وبتی معیشیت کی سانسیں بال کرنے کی امیددلاتا ہیتوھتک آمیز شرائط کے ساتھ۔ یہاں تک کہ بین القوامی ادارے بھی دوٹوک الفاظ میں یہ ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ انکی وضع کردہ اقتصادی اور انتظامی پالیسیوں پرعمل کرنیکی یقین دہانی کروا ؤ اور ہم عوام کوجھوتی تسلیاں دینے میں مصروف ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ایک زمیندار دوسرے شہرگیا تو اس نے گھر فون کیا کہ سب خیریت ہے اسے بتایاگیا کہ کھیتوں میں اگ لگ گئی باقی سب خیریت ہت گھوڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی باقی سب خیریت کتنے مویشی بیماری سے مرگئے باقی سب خیریت ہے ہم بھی امن کی فاختہ اور سکون کاکبوتر نہ اڑا بیٹھیں بالکل اسی طرح جس طرح شہنشاہ جہانگیرنے ملکہ نورجہاں سے پوچھاکہ کبوتر کیسے اڑا ملکہ نے ہاتھ سے دوسراکبوتر ہاھ سے اڑاتے ہوئے کہا ایسے لمحہ فکریہ یہ ہیکہ ہم دوسرا کبوتر نہ اڑابیٹھیں اور پھرکچھ بھی نہ بچے تاریخ نے اس واقعہ کو ملکہ کی معصومیت قراردیا لیکن ہمیں تاریخ سنگین الفاظ سے یاد رکھے گی ہم ذاتی مفادات کی خاطر کج فہمی کی پٹی باندھ کرنہ صرف اناپ شناپ بولتے ہیں بلکہ سلوگن بھی داغ دیتے ہیں کہ قومی سالمیت خطرے میں ہے قومی سالمیت کوخطرے مین ڈالنے سے پہلے سمجھ تو لیں کہ قومی سالمیت کے تقاضے کیا ہیں پاکستان کی تاریخ تویہی بتاتی ہے کہ مشکل میں وہ ہی ڈالتے ہیں جوبچانے آتے ہیں ایک مفکرنے لکھاکہ اگر ماضی کی غلطیاں نہیں سدھاروگے اور ماضی کو پستول سے اڑاؤ گے تو مستقبل تمھیں توپ سے اڑادیگا، ہماری انا خوداری تو کب کی اڑ چکی بس اب ماہرین کے نزدیک دیوالیہ کے توپ کے دہانے سے بندھے ہوئے ہیں اس موقع پر عدلیہ کاموثر کردار ہی کوئی ایسامعجزہ دکھاسکتاہے جوتبدیلی کاپیش خیمہ ہو۔