کنکریاں۔ کاشف مرزا
رحمت العالمین وخاتم النبیینؐ اتھارٹی کا قیام پاکستان میں اسلامی تعلیم کے فروغ کی کوششوں میں ایک اہم کامیابی ہے، اتھارٹی ایسے تعلیمی پروگرامز کو تیار کرنے اور نافذ کرنے کی ذمہ دار ہے جو اسلامی تعلیمات کوفروغ دے، جسکے قیام میں وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین کا کلیدی کردار ہے، جنکی خصوصی کاوشوں اور وزیر اعظم شہباز شریف کی پاکستان میں اسلامی تعلیم کی اہمیت، ترجیح اور یقین کی وجہ سے فعال ہونے کے نزدیک ہے۔اتھارٹی کا بنیادی مقصد اسلامی تعلیمات کا فروغ، رواداری وپرامن معاشرے کی تشکیل ہے۔ یقیننا وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلیے پرعزم اورمعیاری تعلیم کو فروغ دینے کیلیے انتھک کوشاں ہیں، بالخصوص نظام تعلیم کے ساتھ تربیت پرخصوصی توجہ کیلییانکی نمایاں خدمات میں سے ایک حالیہ رحمت لعالمین وخاتم النبیینؐ اتھارٹی کا قیام ہے جسکا مقصد اسلامی تعلیمات و کردارسازی کا فروغ ہے۔ یہ اتھارٹی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ پاکستان میں اسلامی تعلیم اعلیٰ ترین معیار کی ہو،اور سکولز میں اسلامی تدریس اور سیکھنے کے معیار کو بہتر بنانے کیلیے کام کرے، جبکہ بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کو فروغ دینے اور مختلف مذہبی برادریوں کے درمیان افہام و تفہیم و مکالمے کو فروغ دینے اورانتہا پسندانہ نظریات کا مقابلہ کرنے کیلیے اپنا اہم کردار ادا کرے گی۔ وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویرحسین کاتعلیم کو فروغ دینے اورایک زیادہ رواداراور پرامن معاشرے کی تشکیل کا عزم پاکستانی عوام کی خدمت اورانکے لگن سے واضح ہے۔ انکی کوششوں نے پاکستان میں تعلیمی نظام پر نمایاں اثر ڈالا ہے، اورایک زیادہ جامع اور مساوی معاشرے کی تشکیل میں مدد کی ہے۔ رانا تنویر حسین کے دورمیں پاکستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلیے کئی اہم اقدامات کیے گئے۔ یہ اقدامات تعلیم کے شعبے کو درپیش چیلنجوں جیسے کہ معیاری تعلیم تک رسائی کی کمی، خواندگی کی کم شرح، اور ناکافی انفراسٹرکچر سے نمٹنے کیلیے ڈیزائن کیے گئے۔ وزیر اعظم کے تعلیمی اصلاحات پروگرام کے قیام کا مقصد تعلیم کے شعبے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا اور پاکستان میں تمام بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا، معیار کو بہتر بنانا، تعلیم تک رسائی بڑھانے اور مساوات کو فروغ دینے پر مرکوز ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر حسین نے اساتذہ کی تربیت کے مسائل کیحل کیلیے بھی قدم اٹھایا اور نیشنل پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹرز کے ذریعے اساتذہ کو انکے تدریسی طریقوں کو بہتر بنانے کیلئے ضروری ہنرو علم فراہم کیا۔انکی تعلیمی خدمات نے پاکستان کے تعلیمی نظام پر نمایاں اثرات مرتب کیے ہیں۔ پرائم منسٹر ایجوکیشن ریفارم پروگرام اور نیشنل کریکولم ریویژن پروگرام کے قیام سے تعلیم کے معیار میں بہتری آئی ہے اور ملک بھر میں بچوں کی تعلیم تک رسائی میں اضافہ ہوا ہے۔ موجودہ حکومت نیرحمت للعالمین وخاتم النبیینؐ اتھارٹی کاترمیمی بل 17اگست کو گزٹ کیا، وزیر اعظم جوکہ اتھارٹی کے پیٹرن ان چیف ہیں، کوچاہیے کہ چونکہ معاملہ قوم اور نسل نو کے کردار کی تعمیر کا ہے لہٰذا پسندو ناپسندکی بجائے ایسے قابل افراد کا انتخاب کیاجائے جو سیرت سکالرز ہونے کے ساتھ مختلف شعبہ جات کے ماہر ہوں اور حقیقی معنوں میں اتھارٹی کے فلسفہ، مقصد اور پروگرامز کو معاشرے میں عملدرآمد کرانے کی سکت رکھتے ہوں، اور اپنا کردار اداکر سکیں۔ اعزازی دس رکنی مشاورتی کمیٹی ملک کے نامور تعلیم دانوں، سکالرز اورعلمائے کرام پر مشتمل تشکیل دی جائے جبکہ منظورشدہ ایکٹ کے مطابق 8 مستقل ممبران کے انتخاب جو اتھارٹی ایکٹ ترمیمی شق نمبر6 اور ذیلی دفعہ 4 کے مطابق ہے، مستقل فعال اراکین 6 کے بجائے 8 تعداد ہے جن میں دو مسلمان قومی اسمبلی کے ممبرز 6 معروف سیرت نگار سکالر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ممبران کی اہلیت کے معیار میں یقینی بنایاجائے کہ وہ مختلف شعبہ جات میں تحقیق کی مقبول صلاحیت کیحامل ہوں، جدید تحقیق و عصری مسائل کی روشنی میں حقائق کو واضح اور سیرت کی اصل روح کی عوام الناس میں اشاعت کرسکنا حامل ہونا چاہیئے جو پیغام سیرت کی بنیاد پر نوجوان نسل میں تخلیقی صلاحیت کو روشناس کرانے کے اقدامات کو جدت پسند رسائی اور میڈیا کے ذریعہ پہنچانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ بین الاقوامی برادری میں سیرت کی اصل روح اور بیانیے کی تشہیر کرتے ہوئے اسلاموفوبیا کے غلط تصورات کا جوابی بیانیہ فراہم کرنے میں بین الاقوامی دسترس کا ماہر ہو۔ قومی نصاب میں سیرت کی مہارت رکھنے کے ساتھ دیگر مذاہب کے ساتھ مشترکات کی تحقیقات اور تقابل ادیان کا ماہر ہو۔ ایسے بے داغ کردار کے حامل سیرت اسکالرز و تعلیم دان جوکہ مختلف زبانوں کی کتابوں کے تراجم کرنا جانتے ہوں اور نئے تخلیقی خیالات کے ماہر ہوں جبکہ دو مسلم ممبرقومی اسمبلی سے ایک حکومتی اور دوسرا اپوزیشن کا نمائندہ بھی ترجیح طور پراتھارٹی کے بنیادی مقصدو اساس کو سمجھنے والا بے داغ کردار کا حامل سیرت اسکالرز یا تعلیم دان نمائندہ ہونا چاہیے، تاکہ اتھارٹی حقیقی معنوں میں قوم اور نسل نو کے کردار کی تعمیر میں اپنا کردارادا کر سکے۔ اس اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد سیرت النبیؐ اور مدینہ کی ریاست کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق اوران اعلیٰ اقدارکی پاکستانی معاشرے میں عملدرآمد کے فلسفہ کے تحت کیا تھا۔ اتھارٹی کا ایک مقصد سکولزکے نصاب اور سوشل میڈیا پر نازیبا مواد کی مانیٹرنگ کرنا اور بچوں کو اپنی ثقافت سے متعارف کرانے کیلئے کارٹون سیریز بنانا تھا۔ موجودہ نظام تعلیم میں کردار سازی اورتربیت کااہم جز نذرانداز ہے، یقینا اس کی بھرپورتلافی تب ہی ممکن ہوسکے گی جب کرداراور تربیت سازی کیلئے ہمہ وقت ایک منظم ادارہ بھرپور طور پر اپنا کردار ادا کرے۔ ضروری ہے کہ اتھارٹی کے ذمے نوجوانوں کی کردار سازی کیلئے سیرت النبیؐ اور احادیث پر تحقیق کرنا اوراسکے علاوہ سیرت نبویؐ کو نصاب کا حصہ بنانے کیلئے متعلقہ ماہرین سے مشاورت اور اسے دنیا کے سامنے اسلام کی وضاحت کا کام بھی سونپا جائے۔ نوجوان نسل انتہائی دباؤ کا شکار ہے، بیروزگاری اور جنسی جرائم میں اضافہ پاکستان کے نوجوانوں کا اہم بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے، جسکی بڑی وجہ کردار سازی اورتربیت کا فقدان ہے۔مغربی کلچر اپنانے سے ہمارا معاشرہ کیسے بچ سکتا ہے،جب مغربی ممالک کا اپنا خاندانی نظام تباہ ہوچکاہے۔ بچوں کودکھائے جانے والے کارٹون پروگرام ہماری ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتے،اس سے بچوں کی تربیت پر اثر پڑ رہا ہے، موبائل فون نے پوری دنیا بدل دی ہے،اس میں ایسا مواد ملتا ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی جوایک چیلنج ہے۔ قصور میں ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعات اس کی ایک شرمناک مثال ہے۔ اسطرح معاشرے میں طلاق کی شرح میں اضافہ تشویشناک ہے، فحاشی اور منشیات کے اثرات خاندانی نظام پر پڑرہے ہیں، ہمیں نوجوانوں کواسکے معاشرتی اثرات سے بچانا ہے۔ اگر ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنا ہے تو نوجوانوں کی کردار سازی کرنے کیلئے قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ہمیں نبیؐ کی اتباع کرنا ہو گی۔ اگرحقیقی معنوں میں ہم مدینہ کی ریاست کے اصولوں پرچلیں گے تو ملک ترقی کرے گا۔ نبی کریمؐ پوری انسانیت کیلئے رحمت ہیں، قانون کی حکمرانی، فلاح وبہبود، علم کے حصول پر غیرمتزلزل توجہ ہونی چاہیے۔ یہ اتھارٹی سیاسی، سماجی ومعاشی اعتبار سے بھی ان تمام سفارشات کا جائزہ لینے کی مجاز ہو جو عدل پر مبنی ایک صالح معاشرے کے قیام کیلئے سامنے لائی جائیں۔ رحمت للعالمینؐ کی بعثت کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ وہ نظام عدل اجتماعی کوکل نظام زندگی پر اسطرح غالب کردیں کہ کوئی گوشہ زندگی اس سے مستثنیٰ نہ رہیں۔ رحمت للعالمین اتھارٹی و خاتم النبیینؐ اتھارٹی کااہم مقصد اسلاموفوبیا کے تدارک کیلئے دنیا بھرکے اسکالرز سے رابطہ کرے اور دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کیا جائے۔اتھارٹی مغربی تہذیب کے مسلم معاشرے پر اثرات اسکے نقصانات اور فوائد پربھی تحقیق کرے، نوجوانوں پرسوشل و ڈیجیٹل میڈیا اثرات سے محفوظ بنانے کیلئے بھی کام کرے۔ رحمت للعالمین اتھارٹی کا کام ترجیحی بنیادوں پر سیرتِ طیبہ کے عملی زندگی پر اطلاق اور معاشرے میں موجود خلاء کی نشاندہی اورتحقیق سے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں معاونت کرنا ہو۔ اب تک کی پیشرفت ومانٹرنگ اور سیرتِ طیبہ کے پہلوؤں کونصاب میں شامل کرنے پر بھی ٹائم فریم دیا جائے، تاکہ قومی وعالمی سطح پراسلام بارے غلط فہمیوں کو دورکرکے حضورؐ کی زندگی کے اہم اسباق کی تشہیر و تبلیغ بھی ہوسکے۔ وزیراعظم کا قومی رحمت للعالمین و خاتم النبیینؐ اتھارٹی بنانے کا فیصلہ بڑاقدم ہے، قرآن، حدیث، درود و سلام اور اسوۂ حسنہ پر کردار کے ذریعے عملدرآمد کرکے ہم دنیا کی طاقتور ترین قوم بن سکتے ہیں۔
رحمت لعالمین وخاتم النبیینؐ اتھارٹی کے قیام، معیاری تعلیم کے فروغ اور پاکستان میں زیادہ پرامن اورروادار معاشرے کی تشکیل کیلیے وزیراعظم میاں شہباز شریف اور رانا تنویر حسین کی خدمات انکے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جو ہر جگہ ہمارے آقا نبیؐ کی بات کرتے ہیں جو بات دل سے کی جائے وہ اثر کرتی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف اور وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویرحسین کا عزم اوراتھارٹی کاوڑن انکی رحمت لعالمین وخاتم النبیینؐ اتھارٹی کا عکاس ہے جو اتھارٹی کی مؤثر فعالیت سے ہی ممکن ہے۔ اس ضمن ہمیں اپنی سیاست، معیشت، عدالت، سماج وتمدن کو آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا اور اس کیلئے ہمیں رہنمائی مغرب زدہ آئین ودستور سے نہیں ملے گی بلکہ قرآن وسنت اور درودوسلام پر عملدرآمد کی برکت سے ملے گی۔حکومت اوررحمت اللعالمین و خاتم النبیینؐ اتھارٹی کو قرآن وسنت اور سیرت طیبہ کی روشنی میں معاشرے میں موجود معاشی، قانونی وسیاسی ناہمواریوں کو دور کرکے ریاست مدینہ کے رہنما اصولوں پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد کرنا ہو گا۔