شہزاد منیر احمد ریٹائرڈ گروپ کیپٹن
shehzadmuneerahmed@gmail.com
نگارش کا مقصد ہرگز کسی کی ذات کو ھدف تنقید بنانا ،یا کسی کی دل آزاری کرنا نہیں۔ ۔ واقعہ یا کسی حوالے سے اگر کسی کردار کا ذکر ہو جائے تو وہ مماثلت اتفاقیہ ہوتی ھے، جسے برداشت کرنا چاہیے اس نظریے کے مطابق یہ بھی نہ سمجھ لیا جائے کہ حقیقت حال بیان کرتے وقت کالم نگار کسی شخصیت کا نام لکھنے کی بجائے کوئی خوبصورت موڑ دے کر بات کو بدل دیتا ھے ۔وہ سچ ہی لکھتا ھے ۔ میری دانست میں واقعہ کے کردار بعض اوقات ضمنی حثیت رکھتے ہیں لہذا ان کا تذکرہ اتنا ضروری نہیں ہوتا جتنا واقعہ کا پس منظر اہم ہوتا ھے۔
موضوع کی طرف لوٹتے ہیں ۔
ایک نامور جمہوریت پسند قومی بزرگ سیاستدان ، جو دس دس دفعہ جنرل کو صدر مملکت منتخب کرانے کا پرچم تھامے ملک بھر میں پیدل مارچ کیا کرتے تھے انہوںنے فرمایا ھے کہ" نفرت کی سیاست ملک کو شدید نقصان پہنچا رہی ھے۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت ھے کہ ملکی معیشت کو سیدھا کیا جائے ۔ ملک جن بحرانوں میں پھنس رہا ھے اس پر تمام پارٹی کی قیادتوں کو ایک ہونا پڑے گا۔ ہمیں اپنے تمام اختلافات بھلانے پڑیں گے۔"
عوام کو شائد یہ سوال پوچھنے کا حق تو بنتا ھے کہ " ملکی سیاست کو بحرانوں سے دوچار کر کے ناقابلِ عبور دلدل میں لا کھڑا کرنے والے کون ہیں، اگر یہ کارنامہ سیاستدانوں نے سرانجام نہیں دیا تو پھر وہ کون سے عناصر ہیں جو عوام کی اذیت کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔ کب تک ہم مصلحتوں کا رویہ اپنائے رکھیں گے۔
ملک میں ثقافتی ورثے کی حفاظت سیاستدان کرتے ہیں جن کے پاس نظریہ حیات اور نظریہ سیاست قوم کی امانت ہوتا ھے۔ ہمارے سیاستدانوں نے نظریہ حیات بھی بھلا کر مغربی تہذیب کو قائم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ پارلمینٹ میں قانون سازی اسی غیر ذمہ دار سیاستدان ٹولے نے اس ڈھٹائی سے کی کہ نہ ہماری قومی زبان کا ملک میں نفاذ ہو سکا۔نہ اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا جا سکا۔
آج ہم ایک بے شناخت انسانوں کے ہجوم کی حثیت سے قوموں کی زندگی میں نیم پاگل مفلوج و محتاج کی طرح ایک کونے میں کھڑے ہیں۔ نہ ہمارا لباس اپنا، نہ ہماری زبان اپنی، نہ ہماری دینی تعلیم اپنی، نہ نظریہِ ریاست اپنا اور نہ سیاسی رنگ ڈھنگ اپنے، اور نہ اخلاقی میعار اپنا۔ ہماری خوراک اپنی نہیں، ارادے اور عمل اپنے نہیں۔ہم نے تو اپنی قومی ضرورتیں بھی لوگوں سے ادھار لے رکھی ہیں۔ سیاستدانوں نے نہ ہمارا فخر پنپنے دیا نہ ہمارا ناز ہی محفوظ رکھا۔ بتائیں کیا نام دیا جائے آپ کی حب الوطنی کو آپ کی اقتدار پسندی اور ذاتی حثیت کو ۔
اخلاقیات کا جنازہ اس طرح اپنے بھوکے پن سے نکالا کہ سندھی یتیم بچیوں کی امداد میں ملنے والا قیمتی گلوبند کا تحفہ بھی مستحقین تک نہ پہنچ پایا۔
پارلیمنٹ میں اپنی نشست کے حصول کی خاطر سیاستدان کروڑوں میں ممبران کو خریدتا ھے اور پھر کروڑوں میں کئی کئی بار خود بکتا ھے ۔
ناپسندیدہ اور غیر تعمیری ی سیاسی کلچر آسمان سے نہیں برسا ، پاکستان کے پارسا ، پاکیزہ تہجد گزار ، بات بات پہ الحمدللہ الحمداللہ کہنے والے مسلمان سیاستدانوں نے پیدا کر رکھا ھے۔ کہیں وہ اس قومی جرم کے ارتکاب میں براہ راست زمہ دار رہے ، کہیں بالواسطہ اور کہیں حرص و لالچ میں ملک دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہو گئے۔
عوام میں پایا جانے والا بے یقینی کا یہ عالم نیا نہیں ، ماشائ اللہ سیاستدانوں نے برسوں اپنی خصوصی توجہ سے کام کر کے اس کو پروان چڑھایا ھے۔ عوام اپنی بے بسی " کوئی سننے والا نہیں" کہہ کہہ کر ہلکان ہوتے رہے ہیں مگر حکمران سیاسی جماعتوں نے ذرا دھیان نہ دیا۔
آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ھے کہ ملک کا صدر ، جو اصولاً ملک کا سب سے بڑا بزرگ شہری ہوتا ھے ، کچھ کہتا ھے تو اس کی بھی نہیں سنی جا رہی ۔ ہمارے اس قومی چلن کو کسی طرح بھی اچھا نہیں کہا جا سکتا۔
محترم و مقتدر بزرگ سیاستدانوں یہ ھے وہ ریاستی ڈسپلن کا میعار جس پر عوام پریشان اور شرمندہ اذیتوں کی سولی پر چڑھائے جا رہے ہیں۔ آپ خاموش و خوش اپنے اپنے ڈیرے پر محفلین جمائے بیٹھے ہیں۔
نہیں معلوم ہم اپنی منفرد تہذیب کو اپنے ہاتھوں قتل کرنے کے درپے کیوں ہوئے بیٹھے ہیں۔ نہیں معلوم ہم اپنی اصل( خاص ھے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی) سے جدا ہو کر ایک بے وقعت سی زندگی گزارنے پر مطمعن کیوں ہیں۔
سر زمین پاکستان بھی کائنات کا ایک حصہ ھے اور کائینات کا مالک اللّٰہ مالک ارض و سما ھے۔ یہ عارضی طور پر ہماری تحویل ھے جس کے آپ آمین و نگران ہیں۔ جسے آخر کار اپنے مالک کل ہی کے پاس لوٹانا ھے۔ یہ زمین تیرے ابا کی تھی نہ ہی تیری ھے ۔
فاعتبروا یااولی الابصار