1947ء میں برصغیر کی تقسیم ایک بہت بڑی انسانی ٹریجڈی ثابت ہوئی۔مذہبی نفرت اور جذبہ انتقام سے 15لاکھ انسان موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔اس المیے کے دوران مسلمان سولجرز نے بہت جانثارانہ کردارادا کیا۔ تقریباً تین سو سے زائد ٹرینیںجن میں مسلمان بھارت سے پاکستان آئے فوجی انہیں بحفاظت لے آئے۔لیکن لاکھوں کی تعدادمیں یہ لوگ مختلف راستوں سے پیدل پاکستان آئے۔ فوج نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر انکی بھی حفاظتی ذمہ داری پیدل ادا کی اور یہ قافلے ہزاروں کی تعداد میں تھے۔سولجر ز بھی آخر انسان ہیں۔ دن رات کی بے آرامی، مسلسل پیدل سفر، خوراک کی کمی، حفاظت کی ذمہ داری، بے جا اموات کا افسوس اور ٹینشن سے وہ بھی بریک ڈاؤن ہو گئے۔ جی ٹی روڈ پر آنیوالے قافلوں کی حفاظت کا فرض 5/13 فرنٹیر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی میجر خداداد خان کی زیر نگرانی انجام دے رہی تھی۔ رپورٹ ملی کہ 60 فیصد جوان بُری طرح بیمار ہیں۔ جب اس کمپنی کی رپورٹ لاہور ڈویژن ہیڈ کوارٹر تک پہنچی توڈاکٹر نے انہیں پندرہ دن آرام کرنے کا حکم دیا جس کیلئے انہیں ڈیوٹی سے فارغ کرنا ضروری تھا۔ کرنل محمد موسیٰ جو بعد میں پاکستان آرمی کے کمانڈر انچیف بنے لاہور ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں سٹاف آفیسر تھے۔ انہیں حکم ملا کہ موقعہ پر جا کر میجر خداداد کی کمپنی کو واپسی اور آرام کا حکم دے۔ لہٰذا کرنل محمد موسیٰ واہگہ بارڈر پر پہنچا۔ کمپنی کو اکٹھا کیا، اس وقت یہ جوان تقریباً تیس میل لمبے قافلے کی حفاظت کر رہے تھے۔ کرنل محمد موسیٰ جوانوں کی جسمانی حالت دیکھ کر سخت پریشان ہوا۔ جو ان کمزوری اور بیماری سے پہچانے بھی نہ جاتے تھے۔ کرنل محمد موسیٰ نے آنسو ضبط کرتے ہوئے کمپنی سے خطاب کیا۔’’ مجھے آپ کی حالت دیکھ کر دکھ ہوا ہے لیکن اس وقت پاکستان اور ان مسلمان بہن بھائیوں کو آپ کی ضرورت ہے۔ آپ کے لئے حکم ہے کہ آپ واپس آکر دو ہفتے آرام کریں لیکن میں غیر سرکاری طور پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ عین اس وقت امرتسر کی دوسری طرف لٹے پٹے مسلمانوں کا ایک اور قافلہ روانگی کیلئے تیار ہے۔ وہاں بھیجنے کیلئے میرے پاس ایک بھی سپاہی نہیں۔ اب آپ کی مرضی ہے آپ آرام کے لیے لاہور آجائیں یا بہن بھائیوں کی حفاظت کے لئے واپس امر تسر چلے جائیں‘‘ جو نہی کرنل محمد موسیٰ واپس مڑا تمام جوان امرتسر کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہی جذبہ باقی مقامات پر بھی دیکھنے میں آیا۔
ہر فوجی وہ جہاں کہیں بھی تھا اپنا کردار ادا کرنے سے غافل نہیں تھا۔ مثلاً کچھ خواتین بچوں اور بوڑھوں سے بھرے ٹرک امرتسر سے واہگہ کیلئے روانہ ہوئے۔ ٹرک ڈرائیور سکھ تھے۔ یہ لوگ سکھ حملہ آور جتھوں سے ملے ہوئے تھے۔ ایک جگہ پر آرام کے بہانے ٹرک کھڑے کئے جہاں نزدیک ہی حملہ آور جتھہ تیار تھا۔ اتنی دیر میں پنجاب بارڈر سیکیورٹی فورس کی میڈیکل برانچ کا ایک مسلمان نائیک کسی طرح وہاں آپہنچا۔ خوش قسمتی سے یہ شخص مسلح تھا۔ اس نے خطرہ بھانپ لیا۔ فوری طور پر تمام مہاجرین کو نیچے اتارا۔ گارڈ کے فرائض انجام دیتا ہوا پورے قافلے کو بحفاظت پاکستان لے آیا۔ اسی طرح حوالدار محمد شریف نے ضلع ہوشیار پور کے گاؤں ستی وال میں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کیا۔ سکھوں کا مقابلہ کیا اور تمام لوگوں کو بچا کر پاکستان لایا۔یہ شخص سخت زخمی ہوا۔ جب ہسپتال لایا گیا تو اس کے جسم کا کوئی حصہ ضربوں یا زخموں سے خالی نہ تھا۔ یہ لوگ اپنے خاندانوں او رشتہ داروں کی سلامتی سے لا پرواہ ہو کر پاکستان کی خدمت سر انجام دیتے رہے۔
ریٹائرڈ فوجیوں نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا۔ ضلع روہتک کا قصبہ کلانور مسلمان راجپوتوں کا علاقہ تھا جہاں کافی سارے ریٹائرڈ فوجی موجود تھے۔ جونہی فسادات شروع ہوئے ان ریٹائرڈ فوجیوں نے اردگرد کے تمام مسلمانوں کو مخصوص مقامات پر جمع کیا اور پورا علاقہ ایک فوجی قلعے میں بدل دیا۔ یہاں سکھوں نے حملوں کی سرتوڑ کوشش کی لیکن ان با عزت راجپوتوں نے کسی کو نزدیک تک نہ آنے دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی علاقوں کے ریٹائرڈ فوجی بھی متحد ہو گئے۔ مثلاً تحصیل فلور کے گاؤں تلوان میں ریٹائرڈ کیپٹن حبیب اللہ نے اپنا گاؤں قلعے میں تبدیل کر دیا جہاں دور و نزدیک کے بہت سے مسلمانوں کو پناہ ملی۔ چک سعد اللہ ضلع امرتسر میں کیپٹن ریاض چوہدری نے بھی وہی کچھ کیا۔ یہ ریٹائرڈ فوجی اپنے تمام لوگوں کو بحفاظت پاکستان لیکر پہنچے۔ ریٹائرڈ فوجی مشرقی پنجاب میں ہر اول دستہ ثابت ہوئے۔ ان لوگوں کی کہانیاں بہت جلد پورے علاقے میں پھیل گئیں۔ لہٰذا سویلین مسلمان بھی متحرک ہو گئے۔ مختلف علاقوں کے مسلمان کسی مرکزی علاقے میں اکٹھے ہوتے گئے اور سکھوں کا مقابلہ کیا تا وقتیکہ فوج انہیں وہاں سے نکال کر نہ لے آئی۔ سرہند کے پٹھان اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ بستی پٹھاناں کے مرکزی علاقے میں اکٹھے ہوئے جہاں سب سے زیادہ مسلمان قافلے لٹتے تھے۔ ان لوگوں نے نہ صرف پیدل قافلوں کو لٹنے سے بچایا بلکہ کئی ایک مہاجر ٹرینوں کی بھی حفاظت کی۔ ان لوگوں کا اتحاد اور دلیری قابل فخر تھی۔
یہ تو فوجیوں کی خدمت کا صرف ایک رخ تھا۔ فوجیوں نے اپنے پیٹ کی بھی قربانیاں دیں۔ جو کچھ گھروں میں تھایا جو کچھ میسر آسکا جا کر مہاجرین کے بچوں کو دے دیا۔ جب قائد اعظم کی طرف سے مدد کی اپیل کی گئی تو فوجیوں نے سب سے بڑھ کر مدد کی۔ اپنی پوری پوری تنخواہیں دے ڈالیں۔ فوج کی طرف سے مدد کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
1۔ 7thڈویژن 2,74,556.8 روپے
2۔ 8thڈویژن 97,737.3 روپے
3۔ 9thڈویژن 1,79,479.3 روپے
4۔ 10thڈویژن 2,61,013.5 روپے
5۔مشرقی پاکستان سب ایریا30,259.9 روپے
یہ اس دور کے حساب سے بہت خطیر رقم تھی کیونکہ سپاہی کی تنخواہ اُس وقت فقط پندرہ سے بیس روپے ہوتی تھی۔ کچھ لوگ قربانی کے جذبے میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ ان کے اپنے بال بچوں کی حالت فاقوں تک جا پہنچی۔ اچانک فوجی ہسپتال بیمار خواتین اور بچوں سے بھر نے لگے۔ انکوائری سے پتہ چلا کہ بہت سے خاندان خوراک کی کمی کا شکار ہو گئے تھے۔ کمانڈر انچیف کو سرکاری طور پر حکم دے کر اس قسم کی امداد بند کرنا پڑی۔
ایک سرسری جائزے کے مطابق ٹرینوں کے علاوہ پیدل قافلوں کی حفاظت پر مامور یونٹوں نے بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر کام کیا مثلاً پروبن ہارس Probyn's Horse نے بیاس، اٹاری، موگا فیروز پور، گنڈا سنگھ راستوں پر دو لاکھ چالیس ہزار مہاجرین کو بحفاظت پہنچایا۔ 3/16 پنجاب نے گورداس پور کے علاقے میں فرائض سر انجام دیئے اور تقریباً ایک لاکھ مہاجرین کو لے آئے۔ 5/13 فرنیٹر فورس رائفلز نے نہر اپر باری دو آپ کے راستے امرتسر سے پدھا نہ تک کے علاقے سے تقریباً 6 لاکھ مہاجرین بحفاظت پہنچائے۔ اسی طرح 3/12 فرنیٹر فورس نے پورے ضلع جالندھر میں حفاظتی فرائض سر انجام دیئے۔ ان یونٹوں کے علاوہ بھی بہت سے لوگوں نے پلاٹونوں اور گروپس کی صورت میں چھوٹے چھوٹے راستوں کی حفاظت کی۔
جو کچھ بھی فوج نے کیا یہ اُس کا فرض تھا۔ اس نے اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھائے۔ فوج ہی وہ واحد منظم ادارہ ثابت ہوا جس نے مسائل میں گھرے نوزائیدہ پاکستان کو اپنا خون، اپنے وسائل، اپنی ذہنی اور جسمانی توانائیاں دیکر استحکام بخشا۔ اگر خدانخواستہ فوج اس وقت موجود نہ ہوتی تو اس نوزائیدہ پاکستان کا حشر بھی حیدرآباد (دکن) اور گوا جیسا ہوتا۔ جنرل کری آپا جیسے متعصب ہندو فوجی پاکستان ختم کرنے کیلئے تو پہلے ہی سے تیار تھے اور اس مقصد کیلئے مکمل منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ قوم یادر کھے یا نہ رکھے فوج نے نہ صرف بے مثال قربانیاں دیں بلکہ اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنایا۔ پاک فوج زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔