آخر کار سپریم کورٹ آف پاکستان نے قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کے خلاف جھوٹے مقدمۂ قتل میں اس رائے کا اظہار کر د یا کہ جناب بھٹو کے خلاف انصاف نہیں کیا گیا۔ یہ صدارتی ریفرنس پاکستان کے صدر جناب آصف علی زرداری نے کئی برس پہلے سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔ 44برس پہلے یہ تاثر قائم ہوا کہ قائدِ عوام کا عدالتی قتل کیا گیا ہے اور 4مارچ 2024کو عدالتِ عظمیٰ نے اس کی تصدیق کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بلاشبہ قابلِ اطمینان ہے لیکن مجھ جیسے ہزارہا لوگ غم زدہ ہیں کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا خونِ ناحق کیا گیا اور ان کے نواسے بلاول بھٹو کے آنسوئوں کی آبشار اس حقیقت کی مظہر ہے۔جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1978ء میں پھانسی کی کوٹھڑی سے اپنے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کے نام خط میں یہ لکھا تھا :
’’ان بدترین حالات میں جن سے ہم پہلے کبھی نہیں گزرے تھے آپ کی والدہ اور ہمشیرہ میرے لیے قوت کا ایک شاندار ستون ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی شاندار مجاہدانہ مدد کے بغیر حالات میرے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بن جاتے۔ عدالتوں اور انتظامیہ میں میرے لیے کوئی انصاف نہیں ہے صرف اللہ تعالیٰ اور عوام ہی کے ہاتھوں میں میری زندگی ہے۔‘‘(یہ خط لندن کے اخبار ڈیلی میل میں شائع ہوا تھا)
پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے فیصلہ پر دنیا بھر میں شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ۔ عالمی رہنمائوں اور حکومتوں نے اس کی بھرپور مذمت کی تھی۔ اس فیصلے کو دنیا بھر کے اخبارات نے سیاسی قتل سے تعبیر کیا اور لکھا کہ ’’مسٹر بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔‘‘ انہوں نے اپنے تبصرہ میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق کا نام لے کر کہا کہ ’’عدالتی کارروائی کے دوران چیف جسٹس کا جانبدارانہ رویہ اور مسٹر بھٹو سے ذاتی عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ مولوی مشتاق حسین نے 18مارچ 1978ء کو جب جناب بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا تو بیرون ملک خصوصاً لندن اور یورپ میں مقیم پاکستانیوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ مرتضیٰ بھٹو نے آکسفورڈ سے لندن آ کر پیپلزپارٹی کے رہنمائوں اور کارکنوں کے ساتھ مل کر بھٹو صاحب کی زندگی بچانے کے لیے لائحہ عمل تیا رکیا۔ مرتضیٰ بھٹو کی قیادت میں پہلا جلوس اس عالمگیر مہم کا آغاز تھا جس سے برطانیہ بھر کے پاکستانی اور کشمیری اتحاد کی بے مثال زنجیر بن گئے۔ برمنگھم کی سڑکیں مظاہرین کے ان نعروں سے گونج رہی تھیں۔ ’’بھٹو بیگناہ ہے، جنرل ضیاء مردہ باد، جمہوریت بحال کرو، بھٹو کو رہا کرو۔‘‘ اس کے بعد پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے احتجاج کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہو گیا۔ عالمی رائے عامہ پہلے ہی جناب بھٹو کو سزائے موت دینے کے خلاف تھی اس لیے ان کی زندگی بچانے کی مہم دنیا کی توجہ کا مرکز بن کر تمام دارالحکومتوں تک پھیل گئی۔ لندن اس عالمگیر مہم کا اہم مرکز تھا اور ہائیڈ پارک میں ایک تاریخی مظاہرہ ہوا جس میں برطانیہ بھر سے کم و بیش بچاس ہزار لوگوں نے شرکت کی تھی۔ اس مظاہرے میں پی پی کے علاوہ دیگر جمہوریت پسند جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اہم کردار ادا کیا اور وہ اس مہم میں آخر دم تک پیش پیش رہیں۔
برطانیہ میں بھٹو صاحب کے احباب اور مداح بڑی تعداد میں موجود تھے۔ آکسفورڈ میں عالمی شہرت یافتہ تاریخ کے پروفیسر Hugh Trever Rupert بھٹو صاحب کے استاد تھے۔ بھٹو صاحب کے حلقہ احباب میں برطانوی صحافیوں اور دانشوروں کی بڑی تعداد تھی۔ اسکے علاوہ پارلیمنٹ میں بھی ایک گروپ ان کی حمایت میں سرگرم تھا۔ بھٹو صاحب کی حمایت میں ’’پاکستان میں جمہوری حکومت اور آزادی صحافت‘‘ کے نام سے کمیٹی تشکیل دی گئی۔اس کمیٹی میں بھی متعدد ارکان پارلیمنٹ، بااثر اخبار کے ایڈیٹر ،دانشور اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سرکردہ افراد شامل تھے۔
کمیٹی کے کنوینر ایک ممتاز صحافی مسٹر کلاڈ مورس تھے۔ اس کمیٹی میں واحد پاکستانی رکن میں تھا۔ اس تنظیم کی طرف سے لندن ٹائمز میں ایک صفحہ کا اشتہار شائع کیا گیا جس میں جنرل ضیاء سے اپیل کی گئی کہ بھٹو صاحب کو سزاکے فیصلے پر نظرثانی کرے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کا وعدہ پورا کرے۔ مزید برآں برطانوی پارلیمنٹ میں اس ضمن میں ایک قرارداد بھی پیش ہوئی جس پر اس وقت کی حزب اختلاف کی لیڈر مسز مارگریٹ تھیچر نے بھی دستخط کیے۔ سپریم کورٹ میں اپیل مسترد ہونے کے بعد بیرون ملک شدید ترین ردعمل ہوا اور بیرون ملک پاکستانیوں کے علاوہ دوسرے ممالک کے شہریوں نے بھی زبردست احتجاجی مظاہرے کیے اور بہت بڑے بڑے جلوس نکالے۔
تین اور چار اپریل کی رات ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں جنرل ضیاء نے اپنے طاقتور حریف جناب ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کر دیا۔ اس خبر کے آتے ہی دنیا میں ایک کہرام مچ گیا۔ ہائیڈپارک لندن میں بھٹو صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ میں ہزار ہا لوگ شریک ہوئے۔ جس میں برطانیہ کے علاوہ یورپی ممالک سے پاکستانیوں نے شرکت کی۔ہائیڈ پارک میں نماز جنازہ کے بعد ایک جلوس نکالا گیا جو پارک لین اور نائٹس برج کی شاہراہوں سے ہوتا ہوا دریائے ٹیمز پر جا کر اختتام پذیر ہوا۔ اس جلوس میں برمنگھم کے پہلے احتجاجی مظاہرے میں لگائے گئے نعروں کی صدائے بازگشت بار بار سنائی دی۔جناب بھٹو کے اس عدالتی قتل پر عالمگیر ردعمل لندن کے ہائیڈ پارک سے لے کر سری نگر اور مشرقی وسطیٰ تک دراز تھا اور لاکھوں لوگوں نے سوگ اور غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ یہ حقیقت بطور خاص قابل ذکر ہے کہ سری نگر میں تین روز تک عوام نے احتجاج جاری رکھا اور مقبوضہ کشمیر کے وزیراعظم شیخ عبداللہ کے بقول وہاں بھٹو صاحب کے حق میں اور ضیاء کے خلاف نفرت کا سیلاب امنڈ آیا اور سرکاری املاک کو کئی کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا۔لندن میں 6اور 7اپریل کو بین الاقوامی جیورسٹ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس دو روزہ کانفرنس میں دنیا کے ممتاز قانون دانوں اور دانشوروں نے بھٹو صاحب کے مقدمہ کے تمام پہلوئوں کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے اسے ’’عدالتی قتل‘‘ قررا دیا۔ انہوں نے متفقہ طور پر ایک قرارداد پاس کرکے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب کرٹ والڈہم کو بھیجی۔ قرارداد میں یہ اعلان کیا گیا کہ مسٹر بھٹو کے ساتھ ناانصافی کرکے ان کا قتل کیا گیا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کو 44برس ہورہے ہیں۔ ان برسوں میں پاکستان پیپلزپارٹی نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اپنے عظیم قائد کی عظیم قربانی کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا زخم بھی تازہ ہے، لیکن اس سانحہ کے باوجود پارٹی کارکنوں کا شہید ذوالفقار علی بھٹو سے عقیدت و احترام کا رشتہ مضبوط تر ہوا ہے۔ وہ ہر سال 4اپریل کو گڑھی خدا بخش جا کر اپنے عظیم قائد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں اور کارکن اسی توانا جذبہ سے سرشار ہیں جو انہیں قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے عطا کیا تھا۔جناب زیڈ اے بھٹو تاریخ کا ایک مضبوط حوالہ ہیں۔ اور تاریخ کے اس عظیم سورج کی روشنی کا سفر آج بھی جاری ہے۔
٭…٭…٭