”مسلم عالمگیر تنظیمیں اور مٹھی بھر یہود!“

(نسیم الحق زاہدی)

عالم اسلام کے خلاف سیکڑوں سال سے جاری یہود وہنودکی شر انگیزیوں نے نہ صرف مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا بلکہ پوری دنیا کے امن وسلامتی کو بھی تباہ وبرباد کرکے رکھ دیا۔یہود یوں کے بڑھتے ہوئے ان جارحانہ رویوں اور مسلم کش پالیسیوں نے عالم اسلام کو جڑوں تک ہلادیا چنانچہ عالم اسلام کو متحد کرنے اور مسلم دشمن پالیسیوں کے سد باب کے لیے 28مارچ 1945ءکو ”قاہرہ“مصرمیں عرب لیگ کے بنیاد رکھی گئی جس کا مقصد عربوں کا باہمی اتحاد اور اسرائیل کے مبینہ حملوں کی روک تھام کے علاوہ ایسی تمام کاروائیوں کے آگے بند باندھنا تھا جو عالم اسلام کو شدید تر نقصان پہنچانے کا موجب بن رہی تھیں۔ابتداءمیں سعودی عرب،مصر،شام،اردن،یمن اور لبنان نے اس میں شمولیت اختیار کی مگر بعد میں لیبیا، کویت، الجزائر، سوڈان، تیونس،مراکش،بحرین،عمان،جمہوریہ یمن،صومالیہ،فلسطین،قطر،جبوتی،ماریطانیہ اور متحدہ عرب امارات بھی اس میں شامل ہوگئے۔اس بڑے اتحاد کے باوجود اسرائیلی جارحیت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی تو عربوں نے اس سے ایک قدم اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں مسلم امہ کا ایک بین الاقوامی ادارہ ”مسلم ورلڈ لیگ“مئی 1962میں قیام میں آیا۔یہ ادارہ جو کہ مکہ مکرمہ میں وجود میں آیا،خالصتاً ایک غیر سیاسی،غیر جانبددار،اور غیر فرقہ وارانہ تنظیم کا حامل ادارہ قرار پایا۔اس ادارے کے اغراض ومقاصد میں شامل ہے کہ 1۔اسلام اور اسلامی تعلیمات کو ساری دنیا میں پہنچانا۔2۔دشمنان اسلام کے جھوٹے پراپیگنڈوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو غلط تاثر قائم ہوئے ہیں 
انہیں دورکرنا۔3۔مسلمانوں اور خاص طور پر مظلوم اور اقلیتی مسلمانوں کو اپنے مذہبی،تنظیمی وثقافتی حقوق اور سرگرمیوں کا تحفظ کرنے وانہیں ترقی دینے میں مدد دینا۔4۔اسلامی دعوت کو فروغ دینے اور اتحاد وسا لمیت کے حصول میں مسلمانوں کی مدد کرنا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔! مسلمانوں کے تحفظاتی ان اقدامات نے یہود ونصاریٰ کو مزید سیخ پاکردیا اور وہ ایک نئے انتقامی جذبہ کو لے کر مسلمانوں کے خلاف میدان عمل میں اتر پڑے اور پھر جب بالخصوص ان یہودیوں کی شرانگیریاں وشرافشانیاں حد سے تجاوز کر گئیں تو 21ء اگست 1969ءکو مسجد اقصیٰ میں آتش زنی کا واقعہ پیش آیا جس نے پورے عالم اسلام کو جھنجھوڑ کررکھ۔مسجد اقصیٰ کو آگ لگانے کے اور اسرائیلی اس جارحیت نے مسلمانوں کو نئے سرے سے ایک بڑے اتحاد کی طرف سوچنے پر مجبور کردیا دیا چنانچہ اسی سال 25اگست کو قاہرہ میں عرب لیگ کے چودہ رکنی ممالک کے وزراءخارجہ کااجلاس طلب کرلیا گیا جس میں متفقہ طور پر سعودی عرب کے شاہ فیصل اور مراکش کے شاہ حسن دوئم کواختیار دیا گیا کہ وہ دنیا کے اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس بلانے کااہتمام کریں لہذا کانفرنس کے اس باضابطہ اجلاس سے قبل سات اسلامی ممالک پر مشتمل وزرائے خارجہ کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جسے ”تیاری کمیٹی“کا نام دیا گیا۔اس تیاری کمیٹی کا باقاعدہ اجلاس 29اگست 1969کو مراکش کے شہر رباط میں منعقد ہوا جس میں پاکستان بھی شامل تھا۔اس اجلاس میں 35اسلامی ممالک کے سربراہوں کو شرکت کی دعوت دی جن میں سے 25ممالک نے اس اجلاس میں شرکت کی دعوت کو قبول کرلیا اس طرح 22ستمبر 1969کو رباط کے ہلٹن ہوٹل میں اسلامی سربراہوں کی پہلی کانفرنس کاانعقاد ہوا جو تین روزتک جاری رہا۔یہ اسلامی سربراہی کا نفرنس جسے ”اوآئی سی“کہا جاتا ہے۔کیا آج تک اپنے ان مقاصد میں کامیاب ہوپائی جن مقاصد کے حصول کے تحت اس کا وجود عمل میں لایا گیا؟جیسا کہ اس سے قبل کہا جاچکا ہے کہ او آئی سی کے قیام اور اس مسلم اتحاد نے یہودیوں کو نہ صرف سیخ پاکردیا بلکہ انہوں نے اپنی ان کاروائیوں اور جارحیت میں بھی مزید اضافہ کردیا لہذا اپنی اس روش اور مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے اکتوبر 1973میں عرب کے ساتھ باقاعدہ جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجے میں اسلامی سربراہوں کااجلاس بلانا ناگزیر ہوگیا اور یہ اجلاس جو مصر میں ہونا طے پایا تھا۔اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی خصوصی درخواست پر پاکستان منتقل کردیا گیا جس میں بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا بھی ایک ایجنڈا تھا جو پاکستان کی مرضی ومنشاکے بغیر پورا نہیں ہوسکتاتھا چنانچہ 22فروری 1974کو دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی جو تین روز تک جاری رہی حسب سابق قراردادیں پیش اور منظور ہوئیں اور اجلاس بھی حسب روایت اختتام پذیر ہوا۔تب سے لیکر اب تک ان مسلم عالمگیر تنظیموں کے سیکڑوں نہیں تو درجوں اجلاس منعقد ہوچکے اور درجنوں قراردادیں پیش ومنظور بھی ہوئیں لیکن ان اجلاسوں اور منظور کردہ قرار دادوں کے کوئی مثبت نتائج جنہیں ہم کہہ سکیں کہ ان کے باعث مسلم امہ متحد ہوئی،مضبوط ہوئی،یک جا ہوئی یا میدان عمل میں اتری؟فی الوقت تو کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا البتہ اس کے برعکس مسلم امہ آپس میں دست وگریبان ضرور ہوئی۔مشرق وسطیٰ کے چار بڑے اور طاقتور ممالک مصر،شام،ایران اور عراق خانہ جنگی کی لپیٹ یا آپس کی جنگوں میں الجھ کر تباہ ضرور ہوئے اردن،یمن،سوڈان کی عسکری،سیاسی ومعاشی قوت کو بکھیر کررکھ دیا گیا۔یہود ونصاریٰ کی زنجیروں میں جکڑے یہ اسلامی ممالک اورڈیڑھ ارب سے زائد سے مسلمان،کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں؟ان تمام تر حالات وواقعات کے ذمہ دار آخر ہے کون؟شائد اس کا جواب کسی کے پاس نہیں اور اگر ہے تو وہ اس کا جواب دینے کا اہل نہیں غالباًاس لیے کہ یہ بھی ایک بین الاقوامی حمام ہے۔ماضی کی طرح اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطینی عوام پر قیامت ڈھادی۔تاریخ کی بدترین بمباری نے غزوہ کو جو صرف 22,23لاکھ آبادی کا شہر ہے،کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہزاروں بے گناہ ومعصوم شہریوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جن میں معصوم و ننھے بچے بھی شامل ہیں دیکھا جائے تو شہری آبادیوں جن میں سکول،کالج،ہسپتال شامل ہیں،کو نشانہ بنانا اور انہیں ملیا میٹ کردینا۔بین الاقوامی قانون کے تحت ایک گھناو¿نا جرم ہے جس کی تحت اسرائیل باقاعدہ ایک جنگی مجرم ہے لیکن امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے دورہ تل ابیب پر یہ کہا تھا کہ ”مجھے اسرائیل آنے پر فخر ہے،ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں،اسرائیل دنیا میں یہودیوں کے لیے محفوظ ریاست کے طور پر قائم ہوا،میں کانگریس سے اسرائیل کے لیے دفاعی پیکج کو منظور کرواو¿ں گا،اسرائیلی لوگوں کی جر?ت،عزم اور حوصلے کو سراہتا ہوں،دینا دیکھ رہی ہے کہ کہ ہم کیا کریں گے،7اکتوبر اسرائیل کے لیے 9/11ہے۔۔۔۔!“دوسری طرف او آئی سی کا ہنگامی اجلاس،سربراہی نہیں بلکہ بین الوزارتی جس میں چند اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ نے شرکت کی۔اجلاس میں ماضی کی طرح قرار دادیں پیش اور منظور کی گئیں۔مٹھی بھر یہودیوں نے غزہ سمیت عالم اسلام کو تباہ کردیا اور عالمگیر مسلم تنظیمیں فقط قراردادیں پاس کرتی رہ گئیں۔جب تک حرم کی پاسبانی کے لیے مسلم ایک نہیں ہوں گے یہ مٹھی بھر یہودعربوں واربوں مسلمانوں پر اسی طرح حاوی وبھاری رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن