ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com
آصف علی زرداری جب پہلی بار 2008 میں صدر،مملکت کے منصب جلیلہ پر سرفراز ہوئے تو سب سے بڑا کام بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس دائر کرنا سمجھا گیا اس ریفرنس کا نتیجہ ہے کہ زرداری صاحب 9 مارچ 2024 کو دوبارہ صدر پاکستان منتخب ہوئے۔ اس سے تین روز پہلے صدارتی ریفرنس کا مختصر فیصلہ سنایا جا چکا ہے۔ آصف علی زرداری نے تیرا سال جیل کاٹ۔ بھٹو فیملی کا ساتھ چھوڑا نہ پیپلز پارٹی سے الگ ہوئے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ ضیا الحق نے الٹا ،اس سے پہلے بھی ایوب خان ایسے ہی اقتدار پر قبضہ کرکے طویل عرصے تک اقتدار کے مزے لے چکے تھے۔ ضیاالحق نے بھی وہی راستہ اپنایا۔ بھٹو پر ایک قتل کا مقدمہ بنایا جس میں فیر ٹرائل نہیں دیا گیا اور چار اپریل 1979 کو بھٹو کو پھانسی دے دی تھی۔ یہ آمریت کا دور تھا، بھٹو کا یہ کیس جس انداز سے چلا اور سزا دی گئی۔ اس سزا کو جوڈیشل مرڈر کہا گیا یہ ججز کے ذریعے بھٹو کا قتل تھا۔ججز جن کا کام انصاف دینا ہوتا ہے وہی اپنے ہاتھوں جوڈیشل مرڈر کر گزرتے ہیں۔ اس عدالتی فیصلے کے خلاف ریویو بھی دائر ہواتھا مگر اس کا رزلٹ بھی صفر نکلا۔ جس نے بھٹو کا جوڈیشل قتل کروایا ایک دن وہ خود بھی قدرت کی پکڑ میں آگیا۔آصف علی زرداری نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمت نہ ہاری بطور صدر پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف دوہزار گیارہ میں صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ لیکن یہ ریفرنس سرد خانے کی نذر ہوتا رہا۔ تیرہ سال بعدچیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریفرنس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے سرد خانے سے نہ صرف نکالا۔فیصلہ سنا کر ثابت کیا کہ بھٹو کو فیر ٹرائل نہیں دیا گیا تھا۔۔اب تک چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دو تاریخی فیصلے سنا چکے ہیں۔ایک پرویز مشرف کی سزا کو بحال رکھنے کا فیصلہ اور دوسرا بھٹو کے صدارتی ریفرنس کا فیصلہ۔ سب جانتے ہیں یہ بھٹو کا تاریخی ریفرنس تھا۔ جسے راقم ہر تاریخ کو سنتا رہا۔ چھ مارچ کو ساڑھے گیارہ بچے بنچ ون میں اس کیس کا فیصلہ لاجر بنچ نے متفقہ مگر مختصر اپنی رائے دیتے ہوئے چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا کہ بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا۔ عدلیہ نے ڈر خوف میں فیصلہ دیاتھا۔ کہا عدلیہ ماضی کی غلطی کو تسلیم کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔ کہا فیصلہ کالعدم ہو سکتا ہے نہ تبدیل کرنے کا کوئی طریقہ کار موجود ہے۔ یہ رائے متفقہ طور پر نو ججز نے دی ہے۔ جس وقت بنچ ون میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کا فیصلہ سنا رہے تھیتو بلاول بھٹو زرداری روسٹرم پر سینٹر رضا ربانی اور سینٹر فاروق ایج نائک کے ساتھ کمرہ عدالت میں روسٹرم پر کھڑے تھے۔ کورٹ کی رائے سننے کے بعد بلاول بھٹو کمرہ عدالت سے باہر جاتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیاور انکھوں سے آنسو صاف کرتے دکھائی دیئے۔ پارٹی کے لیڈران محترمہ شیری رحمان ، محترمہ مہرین انور راجہ، سابق چیئرمین سینٹ نیر حسین بخاری سینٹر شہادت اعوان، سینٹر سید وقار مہدی، کائرہ صاحب بھی اس روز غمزدہ بھی تھے اور خوش۔ آصف علی زرداری اکثر محترمہ رخسانہ بنگش کے ہمراہ ریفرنس سننے آتے رہے ہیں۔ریفرنس سناتے وقت ایسے دکھائی دیا جیسے بھٹو آج ہی شہید ہونے ہیں۔ آصف علی زرداری نے صدارتی ریفرنس دائر کر کے بھٹو خاندان کے رشتے کو مزید مضبوط کیا تھا۔ آج ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کی روح بھی آصف علی زرداری پر خوش ہوگی۔ شائد یہی وجہ ان سب کی دعاو¿ں سے ایک بار پھر صدر پاکستان بن چکے ہیں۔ صدارتی ریفرنس کو دیکھ کر لگتا ہے آصف علی زرداری کو قدرت نے صدر پاکستان کے منصب سونپا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ان ججز سے ہی کہلوانا تھا کہ بھٹو کا ٹرائل شفا ف نہیں ہوا تھا۔یعنی پھانسی غلط دی گئی تھی۔بھٹو انصاف کی جنگ میں شہید ہوئے۔اس عدالتی رائے کے بعد سچ ثابت ہوا کہ بھٹو شہید تھے اورہیں۔ثابت ہوا کہ اس وقت جوڈیشری آزاد نہ تھی۔ ہمارے ہاں ہمیشہ ہی جوڈیشری کیفیصلے قانون کے مطابق، ججز نہیں دیتے جب کسی سیاسی جماعت کو گھر بھیجنا ہو ،سیاسی لیڈروں سے نجات حاصل کرنی ہو تو جوڈیشری کا سہارا لیا جاتا ہے۔ پھر جوڈیشری کے ججز جج نہیں رہتے ؟۔ سمجھ نہیں آتی ایسا یہ کیوں کرتے ہیں جنھوں نے بے گناہوں کو سزائے موت دی اور اب دنیاسے جا چکے ہیں، ان کو قبروں سے نکال کر سزائیں نہ دیں لیکن ان کی مراعات پنشن بند کریں جائدادیں واپس لیں۔ جب تک ایسے لوگوں کو سزائیں نہیں دیں گے یہ سلسلہ جاری رہیگا۔ قدرت خود بھی اسی دنیا میں بھی برے کاموں کی سزا دیتی ہے اور اچھے کاموں کا صلہ بھی دیتی ہے۔ آصف علی زرداری نے بھٹو ریفرنس دائر کر کے جہاں اس سسٹم کو ججز کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہونے ہیں۔ قدرت نے انہیں اس کا صلہ ایک بار پھر صدر پاکستان بن جانیکی صورت میں دیا ہے۔ آصف علی زرداری بے شمار خوبیاں کے مالک ہونگے۔ لیکن ان کی سب سے خوبی یہ ہے کہ یہ آسان فراموش نہیں ہیں۔ جو بھی ان کی زندگی میں انکے کام آیا اسے یاد رکھا۔ صدر پاکستان بن جانے پر بھٹو کی پھانسی کی سزا کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ جب عدالت سے بھٹو کے کیس میں ریویو بھی خارج ہو چکا ہو تو اب بھٹو کی پھانسی کی سزا کے داغ کو مٹایا نہیں جا سکے گا۔لیکن مرد حر،زرداری سب پہ بھاری اور پاکستان کے نیلسن منڈیلا نے صدارتی ریفرنس دائر کر کے بھٹو کو بے گناہ ثابت کرنے کی آخری کوشش کی۔ آصف علی زرداری کی دور اندیشی ویثرن نے ذوالفقار علی بھٹو پر لگے داغ کو سپریم کورٹ کے نو رکنی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی رائے بھٹو کے حق میں دے کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ اس کا کریڈٹ آصف علی زرداری صدر پاکستان کو جاتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے زرداری ، تیرے جے پت جمڑ ماں واں کدھرے کدھرے کوئی۔ بے۔صدارتی ریفرنس کی کاروائ سننے آصف علی زرداری،بلاول بھٹو پیپلز پارٹی کے لیڈران کے ساتھ کمرہ عدالت آیا کرتیتھے۔ بارہ فروری کو کیس سننے سابق وزیر اعظم سابق اسپیکر قومی اسمبلی فخر پوٹھوار راجہ پرویز اشرف آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کمرہ عدالت میں بیٹھے تھے کیس کی سماعت سن رہے تھے۔ عدالت کا ماحول تھوڑا ریلکس ہوا تو راقم نے راجہ صاحب سے پوچھا راجہ صاحب یہ آپ کے ساتھ کون ہے۔یہ سن کر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو نے بھی مجھے غور سے دیکھا کہ یہ کون وکیل ہے جو زرداری صاحب کو نہیں جانتا۔ راجہ صاحب نے کہا یہ آصف علی زرداری صاحب ہیں۔ یہ سن کر میں نے کہا نہیں۔ یہ پاکستان کے نیلسن منڈیلا ہیں۔ یہ سن کر زرداری صاحب نے مجھے پہچان لیا دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا پوچھا کیسے ہو۔؟کیونکہ یہ نیلسن منڈیلا کا خطاب ہم نے اپنے کالم ٹی ٹاک میں دوہزار چار میں دیا تھا جب 13 سال جیل کاٹی تھی میرا نیلسن منڈیلا کا کالم پڑھ کر زرداری صاحب نے کراچی سے فون کیا تھا پھر اسلام آباد زرداری ہاو¿س میں لنچ پر بلایا تھا۔ صدارتی ریفرنس کے موقع پر اس روز زرداری صاحب کو یہ سب یاد تھا میں نے کہا سر مان لیا مہنگائی ہے لنچ نہیں آپ کروا سکتے کبھی چائے پر ہی بلا لیںجس پر انہوں نے راجہ پرویز اشرف سے مسکراتے ہوئے کہا اسے بلائیں چائے پلائیں گے اور گپ شپ کریں گے۔ آصف علی زرداری نے دوسری بار صدر مملکت بن کر ثابت کیا ہے کہ وہ واقعی ہی زرداری صاحب سب پہ بھاری اور پاکستان کے نیلسن منڈیلا ہیں۔صدر پاکستان دوبارہ بن جانے پر اور صدارتی ریفرنس کی کامیابی پر آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری اور تمام پیپلزپارٹی کے لیڈران سیاسی ورکروں جیالوں کو بہت بہت مبارک!!