سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران صحافی اسد علی طور کی گرفتاری کا تذکرہ ہوگیا۔ تفصیلات کے مطابق پریم کورٹ میں دوران سماعت بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ ’اسد علی طور اس وقت جیل میں ہیں‘، تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا ’وہ جیل میں کیوں ہیں؟‘ اس پر وکیل نے بتایا ’ان پر اعلیٰ حکومتی شخصیات کا وقار مجروح کرنے کا الزام ہے‘۔ اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اسد طور کے خلاف ایف آئی آر پر ایڈشنل ڈی جی ایف آئی اے کو مخاطب کر کے ریمارکس دیئے کہ ایف آئی اے نے سپریم کورٹ کے ججز کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی، کیا کسی جج یا رجسٹرار نے صحافیوں کے خلاف شکایت کی تھی؟ ہمارا نام استعمال کر کے آپ نے اپنا کام کر لیا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اسد طور کے خلاف مقدمہ میں سنگین نوعیت کی دفعات عائد کی گئی ہیں، حساس معلومات سمیت عائد دیگر دفعات کا اطلاق کیسے ہوتا ہے؟انکوائری نوٹس میں لکھا گیا کہ عدلیہ کیخلاف مہم پر طلب کیا جا رہا ہے، ایف آئی آر میں عدلیہ کیخلاف مہم کا ذکر تک نہیں،یہ تو عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی ہے۔بتایا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز اور ہراساں کیے جانے کیخلاف کیس کی سماعت ہورہی ہے جہاں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے، پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے جب کہ اٹارنی جنرل پاکستان بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے آئی جی اسلام آباد پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیئے کہ ایک کرائم کی ریکارڈنگ موجود ہے ان ملزمان کا سراغ نہیں لگا سکے؟ اٹارنی جنرل صاحب یہ کس قسم کے آئی جی ہیں؟ ہم ان کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مطیع اللہ جان اغواء، ابصارعالم پر حملے کے مقدمات میں غیر تسلی بخش کارکردگی رہی، چار سال ہو گئے اور آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ کیا آپ کو چار صدیاں چاہییں؟ اٹارنی جنرل صاحب ان کو ہٹا دیا جانا چاہیئے۔