کچھ عناصر ایران کو ایٹمی ترقی کی طرف لے جانے لگے، مغرب میں تشویش

ایران کی جوہری سرگرمیوں کی بین الاقوامی نگرانی کے خاتمے کے بعد مغرب میں بہت سے سفارت کاروں کو کچھ ایرانی بازوؤں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوف آنا شروع ہو گیا ہے۔ یہ ایرانی بازو ملک کو جوہری ہتھیار رکھنے کی طرف دھکیل رہے ہیں امریکہ اور یورپ کے سفارت کاروں کے درمیان یہ خدشہ بڑھتا جا رہا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی میں کمی اور غزہ میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی کشیدگی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے خواہاں عناصر کی طاقت کو مزید مضبوط کر دے گی۔ .اس تناظر میں ’’یونائیٹڈ اگینسٹ نیوکلیئر ایران آرگنائزیشن‘‘ کے ریسرچ ڈائریکٹر کسری اعرابی نے کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے 7 اکتوبر سے جاری جارحانہ اقدامات کے باوجود ایرانی حکام پر براہ راست نتائج مسلط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان اقدامات میں وہ پراکسی حملہ بھی شامل ہے جو تین امریکی فوجیوں کی موت کا باعث بنا تھا۔ گارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکیوں نے جنوری کے آخر میں ایرانی حکومت اور اس کے سپریم لیڈر کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ تہران کے پاس کشیدگی بڑھانے کی صلاحیت ہے۔کسری اعرابی نے مزید کہا کہ "اس سال کا بقیہ حصہ بہت اتار چڑھاؤ والا ہو گا۔ کم از کم اس لیے نہیں کہ ایرانی حکومت کی راہداریوں میں ایک جذبہ بڑھ رہا ہے کہ اگلے دس ماہ وائٹ ہاؤس میں کسی بھی ممکنہ نئی آمد سے پہلے ہتھیاروں کی طرف بڑھنے کے بہترین موقع کی نمائندگی کرسکتے ہیں۔ یہ خیال اگلے امریکی صدارتی الیکشن میں بائیڈن کی جگہ ٹرمپ کے صدر بننے کے امکان کے تناظر میں پیدا ہورہا ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ڈائریکٹر رافیل گروسی نے گزشتہ ہفتے اعتراف کیا تھا کہ ایجنسی کا معائنہ کرنے والا ادارہ یہ جاننے کی صلاحیت کھو چکا ہے کہ ایرانی جوہری راہداریوں میں سینٹری فیوجز، روٹرز، ہیوی واٹر اور خام یورینیم کے ذخائرکے حوالے سے کیا ہو رہا ہے۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی میں روس کے ایلچی میخائل الیانوف نے خبردار کیا ہے کہ صورت حال "خطرات سے لبریز" ہو چکی ہے۔ روس نے اس حوالے سے 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کو مورد الزام ٹھہرایا۔اس خطرے اور پریشانی کا احساس ایران میں یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافے کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔ یہ سطح حال ہی میں جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی 90 فیصد شرح کے قریب پہنچ گئی ہے۔ بعض ممتاز ایرانی شخصیات کے خالصتاً سویلین نیوکلیئر پروگرام کے لیے ملک کا عزم کے باعث شکوک و شبہات تیزی سے بڑھ گئے ہیں۔ مہینوں سے مسلط علاقائی جغرافیائی سیاسی تناظر اور غزہ کی جنگ کے علاقائی تنازع میں تبدیل ہونے کے خدشے کی وجہ سے مغربی بے چینی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ان تمام وجوہات کے علاوہ ٹرمپ کی ممکنہ صدارت کے دوران 5 نومبر کو ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کے ساتھ ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کی میعاد اگلے سال اکتوبر میں ختم ہونے کا بھی امکان موجود ہے۔گزشتہ ہفتے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے ایک خفیہ رپورٹ میں اعلان کیا تھا کہ ایران نے گزشتہ تین مہینوں کے دوران افزودہ یورینیم کے اپنے ذخیرے میں 60 فیصد کمی کی ہے اور اس کے سٹورز میں 60 فیصد خالص یورینیم کی مقدار گزشتہ نومبر کے کے مقابلے میں 5 فیصد کم ہو گئی ہے۔ لیکن اسی رپورٹ نے خبردار کیا کہ اگر تہران افزودگی کا عمل جاری رکھتا ہے تو آئی اے ای اے کی نظریاتی تعریف کے مطابق اس کے پاس اتنا افزودہ یورینیم موجود ہو سکتا ہے کہ جلد ہی اس سے دو جوہری بم تیار کیے جا سکیں

ای پیپر دی نیشن