بڑے دنوں کے بعد سایہ دیوار میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا، چند روز پہلے اپنے گاوں موسیٰ خیل ضلع میانوالی جا کر ایک رات اور دو دن رہنا پڑا، کبھی ہم نے ہزاروں دن اور راتں وہاں گزاری تھیں میرے کزن ضیااللہ خان نے اپنے بھتیجے کلیم اللہ خان کی شادی کی۔ ابھی دیہات میں قبائلی روایات کی اچھائیاں کچھ کچھ باقی ہیں۔ ہمارے ہاں کزن اور سگے بھائیوں میں فرق نہ تھا۔ اب وہ بات نہیں رہی مگر کچھ بات ابھی ہے چاچے اور والد میں بھی کوئی فرق نہیں، دولہا میاں کا والد عطااللہ خان بھی سب جگہ تھا مگر ہر جگہ ضیااللہ خان تھا، حافظ عصمت اللہ خان بھی بہت سرگرم تھا۔ ہر معاملے میں بھائی جان محمد اکبر نیازی کی رفاقت، قیادت کی طرح ہے سرگرم تو گھر کی سب عورتیں اور مرد تھے ہر بندہ سمجھتا ہے کہ سب کام صرف اسی نے کرنا ہے۔ میرے کزن افتخار خان کی شادی پر بھی یہی حال تھا۔ ضرار خان نگرانی میں تھا اور سب معاملات اسرار خان کے سپرد تھے۔ یہ روایات اب بھولی بسری حکایات بنتی جا رہی ہیں اور زندگی فطرت اور محبت اعتبار اور پیار سے بچھڑتی جا رہی ہے۔ میں جب گاوں جاتا ہوں تو اپنے بھتیجے سہیل خان کے گھر رات گزارتا ہوں وہ میرے مرحوم کزن اقبال خان کا بیٹا ہے۔ مرحوم اقبال خان کے سر پر میرے شاندار دادا جان خان زب نواز کی پگڑی رکھی گئی تھی۔ ذیلدار جہاں خان اگر کسی بڑے شہر میں ہوتا تو قومی سطح کا لیڈر ہوتا۔ وہ اپنے حسن کردار کی استقامت کی وجہ سے شہر کا سردار تھا۔ یہ جب کی بات ہے جب سردار شہر کا اور قبیلے کا نگران اور نگہبان ہوتا تھا۔ ان کے لئے ڈسٹرکٹ گزیٹر میں انگریزوں نے لکھا تھا کہ وہ بہادر آدمی ہے اور بولتا ہے تو (دم بخود) کر دیتا ہے اس کے جنازے میں ایک شخص کو کہا گیا کہ تیرے باپ کا قاتل بھی یہاں موجود ہے اس نے کہا کہ بدلہ لینے کے موقعے اور بھی آئیں گے۔ مگر آج سردار کا جنازہ ہے یہ گواہی ہے اس بہت بڑے آدمی کی کوہسار صفت شخصیت کی کہ اس سے زیادہ عزت اور احترام نہیں ہو سکتا۔ میں اس دفعہ قبیلے کے بہت ہی محترم بزرگ اور دلیر چاچا عظیم کے پاس آسمان تلے کھلے میں سویا شہر میں ستارے نظر ہی نہیں آتے آج وہ میرے ساتھ ہمکلام تھے۔ اتنا خوبصورت آسمان بڑی مدت کے بعد نظر آیا تھا۔ آج مجھے علم ہوا کہ آسمان کی طرف دیکھنے والوں کا دکھ بھی شاندار ہوتا ہے۔ چاچا نور خان بھی آ گیا وہ آرٹسٹ مزاج ہے مگر ماحول اور قسمت نے ساتھ نہ دیا۔ اب وہ غصے میں گالیاں بھی دیتا ہے تو وہ بھی ترنم میں ہوتی ہیں۔ آسودہ آسمان کے تلے رات کے ڈھلنے اور سایہ دیوار کے نیچے دن کے چڑھنے کا سماں اتنا خوبصورت تھا کہ مزا آ گیا۔
اس سے پہلے میں اپنے بیٹے کی بارات لے کر میانوالی گیا۔ رشتے تولاہور میں بہت اچھے تھے مگر میں پرانی اچھائی کی آرزو کو دل میں دبا نہ سکا۔ میرا خمیر ضمیر موسیٰ خیل میانوالی کی مٹی سے اٹھایا گیا۔ میرے بڑوں کی قبریں وہاں ہیں، میرے لئے اطمینان کا باعث ہے کہ میرا گاوں پاکستان میں ہے۔ لاہور سے مجھے بہت محبت ہے میں نے میانوالی میں لاہور بنانے کی کوشش کی اور اب میانوالی اور لاہور کے رابطوں کے لئے بے قرار رہتا ہوں۔ بے قراری رمضان آباد میانوالی جا کے سرشاری بن گئی۔ صاحب داد خان تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں سادگی اور درویشی میں بھی بچیوں کو تعلیم دلانے کا جذبہ ان کے اندر تڑپتا ہے۔ میری بہو نے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی ہے اس کا نام اس کی شخصیت کی طرح خوبصورت ہے۔ حمدیہ، اس کے بچی ہوئی تو اس کا نام ہو گا ’نعتیہ‘۔ ہم چند لوگ لاہور سے گئے تھے۔ موسیٰ خیل سے میرا پورا خاندان ڈھول باجے سمیت آ گیا۔ وہاں میرے دوست معروف سماجی شخصیت اور صحافی محمود الحسن خان نیازی اس طرح سرگرم تھا جیسے پوری تقریب کا وہی انچارج ہو اور ایسا ہی تھا۔ ڈی سی او میانوالی وسیم اجمل چودھری ہم سے پہلے وہاں موجود تھے۔ ڈی سی او چھوٹے ضلعوں میں زیادہ ڈی سی او ہوتے ہیں مگر درست افسر ہونا ہی اصل شان ہے۔ اقوام متحدہ میں بہترین خدمات انجام دینے والے فلاح مزاج کے حمید اختر خان نیازی معروف صحافی رانا ادریس، انوار حقی ایڈیٹر ”ضرب حیدر“ مجید زاہد اور مظفر نیازی کے علاوہ بھی لوگ وہاں آئے تھے۔ میانوالی کے نوجوان ایم پی اے علی حیدر نور نیازی خاص طور سے لاہور سے میانوالی آئے تھے۔ اس نوجوان لیڈر کی طرف سے اچھی خبریں آتی ہیں۔ وہ کام کر رہا ہے، لوگ اس کا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے ہیں۔ شہبازشریف سے اس کا تعلق ان کی نیک نامی کا باعث ہے ۔
میانوالی کی حالت وہی ہے جو آج سے پچیس برس پہلے تھی۔ ایک ہی رستہ شہر کی طرف جاتا ہے۔ وہاںانڈر پاس ریلوے لائن کے نیچے بن گیا ہے مگر اس سے پہلے شہر والا پل وہی ہے کہ جہاں دو موٹر کاریں آمنے سامنے ہوں تو بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ یہ پل چوڑا نہیں ہو سکا۔ شیرپاو پل لاہور چوڑا ہو سکتا ہے تو میانوالی بھی پاکستان کا شہر ہے۔ کوئی بلڈنگ، پارک، لائبریری اور نئی سڑک نہیں بنی۔ یہی حال میرے موسیٰ خیل کا ہے، گلیاں گندی وہاں محکمے والوں نے سڑکوں کو پکا بنایا تو کام زیادہ خراب ہو گیا ہے پینے کے پانی کا مسئلہ شدید ہے یہاں ایک نیا اچھا ٹیوب ویل بہت ضروری ہے۔
شہبازشریف کے پچھلے دور حکومت میں ان کی خواہش پر ان سے ملا تھا۔ موسیٰ خیل اور میانوالی کے لئے سہولتوں کی بات کی تو شہبازشریف نے کہا کہ تم کم کم اپنے علاقے کی طرف جاتے ہو اور یہ باتیں تو میرے ساتھ میانوالی کے نمائندوں نے نہیں کیں۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے لوگوں سے ووٹ نہیں لینا۔ ان کا دُکھ سُکھ میری امانت ہے۔ شاید شہبازشریف کچھ کرتا مگر ان کی حکومت چلی گئی اب پھر انہیں حکومت ملی ہے وہ میرے گھر بیٹے کی شادی کی مبارک باد دینے تشریف لائے تھے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے نئے دور حکومت میں موسیٰ خیل اور میانوالی کے لئے کچھ کریں میں دعا کروں گا کہ یہ کام ہونے تک ان کی حکومت نہیں جائے گی اچھے کام ہوں اور حکومتیں چلی جائیں تو پھر بھی حکومت قائم رہتی ہے۔
اس سے پہلے میں اپنے بیٹے کی بارات لے کر میانوالی گیا۔ رشتے تولاہور میں بہت اچھے تھے مگر میں پرانی اچھائی کی آرزو کو دل میں دبا نہ سکا۔ میرا خمیر ضمیر موسیٰ خیل میانوالی کی مٹی سے اٹھایا گیا۔ میرے بڑوں کی قبریں وہاں ہیں، میرے لئے اطمینان کا باعث ہے کہ میرا گاوں پاکستان میں ہے۔ لاہور سے مجھے بہت محبت ہے میں نے میانوالی میں لاہور بنانے کی کوشش کی اور اب میانوالی اور لاہور کے رابطوں کے لئے بے قرار رہتا ہوں۔ بے قراری رمضان آباد میانوالی جا کے سرشاری بن گئی۔ صاحب داد خان تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں سادگی اور درویشی میں بھی بچیوں کو تعلیم دلانے کا جذبہ ان کے اندر تڑپتا ہے۔ میری بہو نے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی ہے اس کا نام اس کی شخصیت کی طرح خوبصورت ہے۔ حمدیہ، اس کے بچی ہوئی تو اس کا نام ہو گا ’نعتیہ‘۔ ہم چند لوگ لاہور سے گئے تھے۔ موسیٰ خیل سے میرا پورا خاندان ڈھول باجے سمیت آ گیا۔ وہاں میرے دوست معروف سماجی شخصیت اور صحافی محمود الحسن خان نیازی اس طرح سرگرم تھا جیسے پوری تقریب کا وہی انچارج ہو اور ایسا ہی تھا۔ ڈی سی او میانوالی وسیم اجمل چودھری ہم سے پہلے وہاں موجود تھے۔ ڈی سی او چھوٹے ضلعوں میں زیادہ ڈی سی او ہوتے ہیں مگر درست افسر ہونا ہی اصل شان ہے۔ اقوام متحدہ میں بہترین خدمات انجام دینے والے فلاح مزاج کے حمید اختر خان نیازی معروف صحافی رانا ادریس، انوار حقی ایڈیٹر ”ضرب حیدر“ مجید زاہد اور مظفر نیازی کے علاوہ بھی لوگ وہاں آئے تھے۔ میانوالی کے نوجوان ایم پی اے علی حیدر نور نیازی خاص طور سے لاہور سے میانوالی آئے تھے۔ اس نوجوان لیڈر کی طرف سے اچھی خبریں آتی ہیں۔ وہ کام کر رہا ہے، لوگ اس کا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے ہیں۔ شہبازشریف سے اس کا تعلق ان کی نیک نامی کا باعث ہے ۔
میانوالی کی حالت وہی ہے جو آج سے پچیس برس پہلے تھی۔ ایک ہی رستہ شہر کی طرف جاتا ہے۔ وہاںانڈر پاس ریلوے لائن کے نیچے بن گیا ہے مگر اس سے پہلے شہر والا پل وہی ہے کہ جہاں دو موٹر کاریں آمنے سامنے ہوں تو بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ یہ پل چوڑا نہیں ہو سکا۔ شیرپاو پل لاہور چوڑا ہو سکتا ہے تو میانوالی بھی پاکستان کا شہر ہے۔ کوئی بلڈنگ، پارک، لائبریری اور نئی سڑک نہیں بنی۔ یہی حال میرے موسیٰ خیل کا ہے، گلیاں گندی وہاں محکمے والوں نے سڑکوں کو پکا بنایا تو کام زیادہ خراب ہو گیا ہے پینے کے پانی کا مسئلہ شدید ہے یہاں ایک نیا اچھا ٹیوب ویل بہت ضروری ہے۔
شہبازشریف کے پچھلے دور حکومت میں ان کی خواہش پر ان سے ملا تھا۔ موسیٰ خیل اور میانوالی کے لئے سہولتوں کی بات کی تو شہبازشریف نے کہا کہ تم کم کم اپنے علاقے کی طرف جاتے ہو اور یہ باتیں تو میرے ساتھ میانوالی کے نمائندوں نے نہیں کیں۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے لوگوں سے ووٹ نہیں لینا۔ ان کا دُکھ سُکھ میری امانت ہے۔ شاید شہبازشریف کچھ کرتا مگر ان کی حکومت چلی گئی اب پھر انہیں حکومت ملی ہے وہ میرے گھر بیٹے کی شادی کی مبارک باد دینے تشریف لائے تھے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے نئے دور حکومت میں موسیٰ خیل اور میانوالی کے لئے کچھ کریں میں دعا کروں گا کہ یہ کام ہونے تک ان کی حکومت نہیں جائے گی اچھے کام ہوں اور حکومتیں چلی جائیں تو پھر بھی حکومت قائم رہتی ہے۔