اس سے پہلے میں اپنے بیٹے کی بارات لے کر میانوالی گیا۔ رشتے تولاہور میں بہت اچھے تھے مگر میں پرانی اچھائی کی آرزو کو دل میں دبا نہ سکا۔ میرا خمیر ضمیر موسیٰ خیل میانوالی کی مٹی سے اٹھایا گیا۔ میرے بڑوں کی قبریں وہاں ہیں، میرے لئے اطمینان کا باعث ہے کہ میرا گاوں پاکستان میں ہے۔ لاہور سے مجھے بہت محبت ہے میں نے میانوالی میں لاہور بنانے کی کوشش کی اور اب میانوالی اور لاہور کے رابطوں کے لئے بے قرار رہتا ہوں۔ بے قراری رمضان آباد میانوالی جا کے سرشاری بن گئی۔ صاحب داد خان تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں سادگی اور درویشی میں بھی بچیوں کو تعلیم دلانے کا جذبہ ان کے اندر تڑپتا ہے۔ میری بہو نے فارمیسی میں ڈاکٹریٹ کی ہے اس کا نام اس کی شخصیت کی طرح خوبصورت ہے۔ حمدیہ، اس کے بچی ہوئی تو اس کا نام ہو گا ’نعتیہ‘۔ ہم چند لوگ لاہور سے گئے تھے۔ موسیٰ خیل سے میرا پورا خاندان ڈھول باجے سمیت آ گیا۔ وہاں میرے دوست معروف سماجی شخصیت اور صحافی محمود الحسن خان نیازی اس طرح سرگرم تھا جیسے پوری تقریب کا وہی انچارج ہو اور ایسا ہی تھا۔ ڈی سی او میانوالی وسیم اجمل چودھری ہم سے پہلے وہاں موجود تھے۔ ڈی سی او چھوٹے ضلعوں میں زیادہ ڈی سی او ہوتے ہیں مگر درست افسر ہونا ہی اصل شان ہے۔ اقوام متحدہ میں بہترین خدمات انجام دینے والے فلاح مزاج کے حمید اختر خان نیازی معروف صحافی رانا ادریس، انوار حقی ایڈیٹر ”ضرب حیدر“ مجید زاہد اور مظفر نیازی کے علاوہ بھی لوگ وہاں آئے تھے۔ میانوالی کے نوجوان ایم پی اے علی حیدر نور نیازی خاص طور سے لاہور سے میانوالی آئے تھے۔ اس نوجوان لیڈر کی طرف سے اچھی خبریں آتی ہیں۔ وہ کام کر رہا ہے، لوگ اس کا ذکر اچھے لفظوں میں کرتے ہیں۔ شہبازشریف سے اس کا تعلق ان کی نیک نامی کا باعث ہے ۔
میانوالی کی حالت وہی ہے جو آج سے پچیس برس پہلے تھی۔ ایک ہی رستہ شہر کی طرف جاتا ہے۔ وہاںانڈر پاس ریلوے لائن کے نیچے بن گیا ہے مگر اس سے پہلے شہر والا پل وہی ہے کہ جہاں دو موٹر کاریں آمنے سامنے ہوں تو بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ یہ پل چوڑا نہیں ہو سکا۔ شیرپاو پل لاہور چوڑا ہو سکتا ہے تو میانوالی بھی پاکستان کا شہر ہے۔ کوئی بلڈنگ، پارک، لائبریری اور نئی سڑک نہیں بنی۔ یہی حال میرے موسیٰ خیل کا ہے، گلیاں گندی وہاں محکمے والوں نے سڑکوں کو پکا بنایا تو کام زیادہ خراب ہو گیا ہے پینے کے پانی کا مسئلہ شدید ہے یہاں ایک نیا اچھا ٹیوب ویل بہت ضروری ہے۔
شہبازشریف کے پچھلے دور حکومت میں ان کی خواہش پر ان سے ملا تھا۔ موسیٰ خیل اور میانوالی کے لئے سہولتوں کی بات کی تو شہبازشریف نے کہا کہ تم کم کم اپنے علاقے کی طرف جاتے ہو اور یہ باتیں تو میرے ساتھ میانوالی کے نمائندوں نے نہیں کیں۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے لوگوں سے ووٹ نہیں لینا۔ ان کا دُکھ سُکھ میری امانت ہے۔ شاید شہبازشریف کچھ کرتا مگر ان کی حکومت چلی گئی اب پھر انہیں حکومت ملی ہے وہ میرے گھر بیٹے کی شادی کی مبارک باد دینے تشریف لائے تھے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے نئے دور حکومت میں موسیٰ خیل اور میانوالی کے لئے کچھ کریں میں دعا کروں گا کہ یہ کام ہونے تک ان کی حکومت نہیں جائے گی اچھے کام ہوں اور حکومتیں چلی جائیں تو پھر بھی حکومت قائم رہتی ہے۔