گارڈین کے مطابق اسامہ کے خلاف پاکستان اور امریکہ کے درمیان 10 سال پہلے، 2001ءمیں ایک تحریری معاہدہ طے پا گیا تھا کہ اگر اسامہ کی پاکستان میں موجودگی کے ٹھوس شواہد ملے تو امریکہ یک طرفہ کارروائی کر سکتا ہے اور پاکستان اس کارروائی میں ’عدم مزاحمت‘ کا رویہ اپنائے گا، البتہ سرکاری سطح پر اس کارروائی کے خلاف ’احتجاج‘ جاری رکھے گا!
پاکستان اور پاکستانی عوام کی ہر ’بین الاقوامی سبکی‘ کے پیچھے ہمارے کمانڈو چیف آف دی آرمی سٹاف جناب پرویز مشرف کا ’جلد باز ذہن‘ کارفرما نظر آتا ہے! اور ’جلد بازی‘ پر عمل درآمد کے لئے جناب پرویزالٰہی کا ہمہ وقت بیدار اور تیار ’ذہن‘ دستیاب دکھائی دیتا ہے!
یہ یک طرفہ کارروائی‘، اس کارروائی پر ’عدم مزاحمت کا اظہار‘ اور اس کے بعد اس کارروائی کے خلاف سراپا احتجاج ہو جانے کے ’مظاہرے‘ کے بعد جناب آصف علی زرداری اور جناب یوسف رضا گیلانی کے درمیان ’ڈو مور‘ کا امریکی مطالبہ تسلیم نہ کرنے پر جرا¿ت مندانہ اتفاق رائے کس سابق صدر گرامی قدر کے ایجنڈے کا تسلسل ہے؟ یہ ’بھید‘ اسی خبر کے اگلے پیراگراف میں کھلتا ہے اور پھر کھلتا ہی چلا جاتا ہے!
اسامہ بن لادن کے بیٹے کی تصویر جاری کرنے والے اداروں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ صرف جناب اسامہ بن لادن کی میت اٹھانے آئے تھے کہ ان کے صاحبزادے کی میت بھی ساتھ لے گئے تھے؟ اور بحیرہ عرب میں تہ نشیں کئے جانے والے بورے میں پتھروں کے علاوہ بھی کچھ تھا؟ یا، نہیں؟
’جھوٹ بولتا ہے پرویزالٰہی!‘، جناب پرویز مشرف نے اپنا لہجہ ’برقرار‘ رکھتے ہوئے فرمایا، ’لال مسجد پر رینجرز تعینات تھے! اور رینرز کس کے حکم پر موو کرتے ہیں؟ وزیراعلی کے! اور پنجاب کا وزیراعلی کون تھا؟ پرویزالٰہی! جھوٹ بولتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا لال مسجد آپریشن سے!‘
ہم تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے ہیں کہ ’جارج بش، پرویز مشرف‘ معاہدے کے باب میں وہ کسے ’قربانی کا بکرا‘ بنائیں گے! ’جھوٹ بولنا‘! ایسا معاہدہ پاکستان کا صدر ہی کر سکتا تھا؟ اور پاکستان کا صدر کون تھا؟ میں تو چیف ایگزیکٹو تھا! جھوٹ بولتا ہے!‘
جناب رحمان ملک نے جناب پرویز مشرف کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا اور قومی اسمبلی میں ان کے گلے سے پرویزی آواز برآمد ہوتی سنائی دی تو ہم چونکے بغیر نہ رہ سکے، ’دس واز مسلم لیگ نون!‘ .... ’دس واز مسلم لیگ نون!‘ .... ’دس واز مسلم لیگ نون!‘ (یہ مسلم لیگ ن تھی)
یہ ’پرمزاح باتیں‘ پورے ٹھسے سے ہوتی رہیں! کیونکہ وزراءجانتے تھے کہ وہ ’آن ائر‘ ہیں جب کہ حزب اقتدار کے سوا تمام اخراب ’آف ائر‘ تھیں، یہ بات وہ بھی جانتے تھے! بلکہ یہاں تک جانتے تھے کہ سچ صرف پرویز مشرف بولتے ہیں! اور ان کا پہلا فقرہ ہوتا ہے، ’جھوٹ بولتے ہیں! یہ سب!‘
سچ تو یہ ہے کہ امریکہ میں پاکستان کے امریکی شہری سفیر جناب حسین حقانی نے بھی بین الاقوامی برقیاتی ذرائع ابلاغ پر ناظرین سے ایسے ’وعدے‘ کر لئے، جنہیں نبھانا ’مرکزی حکومت‘ کے بس کی بات نہیں! مگر ’وعدے‘ کر لینے میں کیا ہرج ہے؟ کیونکہ وعدے نبھانا اور ان کے خمیازے بھگتنا تو پاکستانیوں کی ذمہ داری ہے امریکہ میں پناہ گزینوں کی تو نہیں!
امریکہ میں بیٹھ کر پاکستان کے خط و خال بیان کرنا بہت آسان ہے مگر ٹھوس زمینی حقائق سے عدم آگہی، صرف پاکستان میں بیٹھے ہوئے پاکستانی ہی کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ ہے، پاکستان ہے تو ہم ہیں، اگر پاکستان پر آنچ آئی تو پاکستانی بھسم ہونے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دکھائی دیں گے! لیکن پاکستان پر آنچ نہیں آنے دیں گے! لہٰذا ہمارے حاکموں کو یقین رکھنا چاہئے کہ انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا کیونکہ ان کی طرف بڑھنے والا ہاتھ توڑنے کے لئے 36 کروڑ ہاتھ موجود ہیں!
یوں بھی یاد رکھنے کی بات صرف اتنی سی ہے کہ سیاست ’فیصلے‘ م¶خر کرتے چلے جانے کا نام ہے حتیٰ کہ ان کا ’م¶ثر ہونا نہ ہونا، بے معنی ہو کر رہ جائے!
یوں بھی اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں سے بہتر کون جانتا ہے کہ ’سیاست‘ تو کھیل ہی ’فیصلے م¶خر کرتے چلے جانے کا نام ہے حتیٰ کہ ہر بازی کے انجام پر بازی کے آغاز میں درکار ’فیصلے‘ اپنی افادیت کھو چکے ہوں اور ’نیا فیصلہ‘ درکار ہو چکا ہو، خواہ وہ بھی م¶ثر ہو نہ ہو مگر وہ بھی م¶خر ضرور ہو! جناب اعجاز کنور راجہ نے شاید اسی تناظر میں کہہ رکھا ہے!....
موسم گل میں فصل خزاں کا چلن، اب ہمیں ایک پل بھی گوارا نہیں
غنچہ¿ نُو دَمیدہ! تری لاش پر رقص بادِ بیماری نہیں چاہئے
امریکہ ہمیں امیر کرنے والا ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو اس سے بڑا جھوٹ ممکن نہیں! خواہ پرویز مشرف بولیں، خواہ کوئی اور؟