محترم قارئین!جب یہ سطور نظر نوازہونگی، تویقیناً عام انتخابات ہونے میں چند گھنٹے باقی رہ گئے ہوں گے اس لئے سوچا کیوں نہ آپ کو ان انتخابات کے موقع پر وہ باتیں ایک مرتبہ پھر بتا دی جائیں جن پر عمل کی وجہ سے ہم 14اگست 1947ءکو ایک قوم کی حیثیت میں دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان سب سے بڑی اسلامی ریاست کے شہری بنے جس کا سبب سوائے اس کے کوئی اور نہ تھا ہمارے بزرگوںنے اپنی زندگی کا، مستقبل کا کل ہمارے آج کے لئے وقف کر دیا تھا اور حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں تحریک پاکستان کو کامیابی نصیب ہو گئی اس آزادی کیلئے جن ہستیوں نے قائداعظم کی قیادت میںآزادی کے لئے جدوجہدکی ان میں برصغیر کے کافی سپوت تھے جنہوں نے جدوجہد بھی کی اور جانی اور مالی ایثار کا مظاہرہ بھی کیا نتیجہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر الحمد اللہ پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔
اس کے لئے جس جس نے قربانی دی جس جس طرح کی قربانی دی اس پر آپ جیسے محب وطن پاکستانی بہت کچھ سن چکے ہیں بلکہ ہمارے تو بزرگ اس میں تن من دھن کی قربانیاں بھی دے چکے ہیں اسی سبب قیام پاکستان کے موقع پر لٹ پٹ کر ، کٹ مر کر آنے والوں، اپنی جنم بھومیوں کو چھوڑ کر، عزت اور ناموس کے ساتھ ساتھ مال ، جان ، آل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہمیں پاکستان دے گئے۔ کون نہیں جانتا اس آزادی کے پراسس میں ہم نے اپنی قیادت کی راہنمائی میں اسلام کے نام پر جمہوری وطن کے لئے جدوجہد کی اس لئے سوچا جائے توہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ بن کر چمکا تو ہر سو گل رنگ سویرا ہو گیا
بانی نوائے وقت جناب حمید نظامی تب اپنی اعلیٰ تعلیم کے باوجود کچھ اور کرنے کی بجائے انہوں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن میںکام کیا اسکے بعد ہفت روزہ ”نوائے وقت“ کا آغاز کیا۔ یہ نظریاتی اخبار تھوڑی دیر کے لئے ہفت روزہ رہا پھر روزنامہ کی صورت اختیار کر گیا اور اس صورت میں قلمی جہاد کا سرخیل بن گیا ۔ ایک لمحہ کے لئے سوچئے کہ مرد مجید جناب مجید نظامی کے بڑے بھائی جناب حمید نظامی نے صرف اپنے مستقبل کی پرواہ کرنے کی بجائے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے نوائے وقت شروع کیا حالانکہ نظامی صاحب کی تب کی تعلیم اور ان کے حالات ایسے تھے کہ وہ اگر قومی جذبے سے سرشار نہ ہوتے تو وہ نہ صرف خود سرکار انگریز کی غلامی میں سرکاری ملازمت اختیار کر لیتے بلکہ اپنے لاڈلے بھائی جناب مجید نظامی کی بھی اس طرح کی تربیت نہ کرتے کہ وہ لندن میں جا کر بیرسٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ روزنامہ نوائے وقت کے لئے مکتوب لندن اور سرراہے جیسی تحریریں لکھنے کے ساتھ ساتھ سیاست اور صحافت کے اسرارورموز پہلے سیکھنے پھر سکھانے میں مصروف ہو گئے۔
قیام پاکستان سے پہلے جناب حمید نظامی نے جب یہ جہاد شروع کیا تو حضرت قائداعظم نے اس کی اخلاقی طور پر سرپرستی فرمائی ۔ یہ روایات بھی موجود ہیں جن پر غور کیا جائے تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ جناب حمید نظامی نے کسی سے اندر خانہ زر امانت اور کسی دولت مند دولتانے ٹوانے سے مالی اعانت لینے سے انکار کر دیاتھا۔پھر جس طرح کے انہوں نے دن دیکھے اس پر تھوڑی دیر کے لئے بھی غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے نظامی برادران نے پہاڑ جیسے عزم کے ساتھ جدوجہد کی اور تب کے مایوس لوگوں کو بتا دیا کہ نظامی برادران کے عزائم بلند تر ہیں اور ان کے Aimsکی راہ میں کوئی رکاوٹ بھی انہیں مقصد سے باز نہیں رکھ سکتی ۔ جناب حمید نظامی نے قیام پاکستان کے بعد تب کے اہل حکومت اور خاص کر فوجی حکمرانوں کے سامنے ڈٹ جانے کا عملی مظاہرہ کیا نتجیتاً جناب حمید نظامی نے بے شک اگلی نسلوں کو یہ پیغام تو دے دیا کہ ”اپنے لہو سے لکھنا سیکھو“ مگر اس جدوجہد میں جان بھی دی ۔بانی چٹان حضرت شورش کاشمیریؒ اس روشن داستان کو جس طرح بیان کرتے ہیں اس سے کافی بڑی تعداد پاکستان میں آگاہ تھی اور ہے۔ بات زیادہ لمبی ہو رہی ہے۔
اختصار سے کام لیتے ہوئے اس شعر کا سہارا لیتے ہیں
سر داد نہ داد دست در دست یزید
حقا کہ بنائے لا اللہ است حسین
حضرت امام حسین کے روشن کردار پر عمل کے لئے آج کی نشست میں یہی لکھ دینا کافی ہو گا۔
زندگی اک تلچھٹ کی صورت میں باقی رہ گئی
ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا بجائے خود جرم ہے
یا
جب کبھی ضمیر کے سودے کی بات ہو
ڈٹ جاﺅ تم حسینؑ کے انکار کی طرح
قارئین! الیکشن کے موقع پر پرچی پر مہر لگاتے ہوئے کسی برچھی والے کا خوف ہمارے دل میں نہیں آنا چاہئے اور یہ بات دل میں ضرور ہونی چاہئے کہ ووٹ دیتے وقت اور کوئی نہ بھی دیکھ رہا ہو تو خدا تو یقیناً دیکھ رہا ہو گا۔
اپنے لہوسے لکھنا سیکھو!
May 11, 2013