بجلی کا بحران اور نگران حکومتوں کی حماقتیں

عام انتخابات کی منزل قریب تر آنے کے ساتھ ایک جانب سیاسی پارٹیوں کے امیدواروں‘ انتخابی دفاتر اور دیگر ٹھکانوں پر دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری جانب بجلی کی قلت کا بحران بھی نازک سے نازک تر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے اور ایک جانب نگران حکومت کی طرف سے پولنگ کے دن یعنی آج 11 مئی اور اس سے منسلک مزید دو روز نہ صرف لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا مژدہ سنایا گیا بلکہ تین روز کی تعطیلات بھی کر دی گئیں۔ سبکدوش وفاقی حکومت میں شامل سیاسی جماعتیں عوام کو سست اور کاہل بنانے کے لئے معمولی بہانے سے عام تعطیلات کرنے کا شوق خوب رکھتی تھیں۔ نگران وفاقی اور صوبائی حکومتیں بھی سابقہ حکمران اتحاد سے پیچھے نہیں رہیں۔ بلکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی صاحب نے تو گذشتہ ماہ بجلی کے روز بروز سنگین تر ہونے کی روک تھام کے لئے وہی طریقہ اختیار کیا جو دو سال قبل سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنایا تھا یعنی یہ کہ ملک بھر میں بجلی کی بچت کے لئے ہفتے میں دو چھٹیاں کر دی گئیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات تھی کہ جس قومی توانائی کانفرنس میں صدر مہمان خصوصی گیلانی نے بجلی بچت کا یہ احمقانہ فیصلہ کیا تھا اور وفاقی حکومت کی سطح تک تو اس پر فوری عملدرآمد لاکھوں سرکاری ملازموں کو ایک طریقے سے ہفتے میں صرف ساڑھے چار دن کام پر لگا دیا تھا لیکن اس کانفرنس کے منتظم اعلیٰ یعنی یہاں شہباز شریف نے اس تجویز کی حماقت کا ادراک کرتے ہوئے پنجاب حکومت کی جانب سے اسے مسترد کر دیا۔ حیرت کا مقام ہے کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی جانے پہچانے دانشور‘ سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں بلکہ ہم تو انہیں اس وقت سے ایک ذہین اور فطین بچے کی حیثیت سے بھی جانتے ہیں جب وہ پانچ چھ سال کی عمر میں کبھی کبھار شام کے وقت اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ گلبرگ سے مسلم ٹا¶ن لاہور میں نہر کے کنارے واقع اپنے ننھیال کے گھرانے آیا کرتے تھے اور ہمارے دادا کے گھرانے کی رہائش گاہ بھی محض دو اپارٹمنٹ کی واک پر واقع تھی اور شاید میں خود نجم سیٹھی صاحب سے دو چار سال بڑا بھی ہوں لیکن اسی لوکیشن میں ایک ملحقہ کوٹھی میں بچے مل جل کر کھیلتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیٹھی صاحب تو بچپن ہی سے بڑے مہذب‘ تمیزدار اور سمجھ بوجھ رکھنے والے تھے لیکن اب انہیں اس بات کا خیال کیوں نہ آیا کہ بجلی کی بچت کے بہانے تعطیلات بڑھانا بے سود بلکہ احمقانہ اقدام ہے۔ احمقانہ اس لئے کہ شاید زیادہ چھٹیاں منانے کے شوقین سرکاری اداروں میں کام کرنے والے بجلی اور توانائی کے وسائل کے تکنیکی ماہرین اور دیگر انجینئروں ہی کی تجویز پر یہ حکم نافذ کیا گیا ہو۔ کیا نگران وزیراعلیٰ یہی سمجھتے ہیں کہ اتوار کے ساتھ ہفتے کی چھٹی پر گھر رہنے والے لاکھوں ملازمین اپنے کنبوں سمیت پنکھے لائٹس اور ”افورڈ“ کرنے والے ائرکنڈیشنڈ بند کرکے بیٹھتے اور سوتے ہوں گے؟۔ شاید سیٹھی صاحب اب سمجھ جائیں گے کہ ماہرین نے نہ صرف انہیں اس مسئلے پر گمراہ کیا ہے بلکہ بجلی کی قلت کا بحران سنگین تر بنا دیا گیا ہے۔
الیکشن قریب آتے وقت بجلی کا بحران شدید صورت نہ صرف اس وجہ سے اختیار کر گیا ہے کہ موسم گرما بھی اب اپنے پورے جوبن ہے اور انتخابی سرگرمیاں تیز تر تھیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ پولنگ کے دن جس پولنگ سٹیشن کے ایریا میں بجلی کی بندش کا وقت آیا تو وہاں الیکشن سٹاف اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کی پریشانیوں کا اندازہ لگا لیجئے۔ خصوصاً جوں جوں شام ہوتی جائے گی۔ انتخابی عملے کے لئے مصیبتیں اور دشواریاں بڑھتی جائیں گی۔ بعض لوگ ہمارے ان خدشات کو یہ کہہ کر رد کر دیں گے کہ حکومت نے تو 36 گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ پر پورے ملک میں پابندی کا اعلان کر دیا ہے لیکن ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ اس سے قبل جب کبھی مخصوص مواقع اور مذہبی اور ثقافتی تہواروں پر بجلی کی لگاتار سپلائی جاری رکھنے کی سہولت دی گئی تھی تو لوگ جانتے ہیں کہ اس فیصلے پر بجلی کے محکموں نے کہاں تک عمل کیا تھا؟۔ بلکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سبکدوش ہونے والی وفاقی حکومت اس سال ماہ رمضان المبارک میں سحر و افطار کے اوقات بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم رکھنے کا فیصلہ کرتی رہی لیکن اس فیصلے کا حشر ہم سب دیکھ چکے ہیں۔
اب ذرا بجلی کی شدید قلت کے حوالے سے نگران وزیراعظم میر ہزار خاں کھوسو کے ارشادات بھی ملاحظہ فرمائیے۔ انہوں نے نگران حکومت سنبھالنے کے بعد جتنی بھی تقاریر کیں اور بیانات جاری کئے ان میں ایک جانب تو یہی کہتے رہے کہ ان کا اولین فریضہ تو عام انتخابات کو پرامن‘ منصفانہ اور شفاف انداز میں کرانا ہے لیکن قوم کو یہ بھی خوشخبری سنا دی کہ وہ اپنے مینڈیٹ کے علاوہ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں خاصی کمی کے انتظامات کریں گے لیکن ان کے اقتدار و اختیارات کا حال یہ ہے کہ ابتدائی ایام میں تو انہوں نے کہا کہ نگران حکومت نے وزارت خزانہ کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ فوری طور پر 20 ارب روپے خزانے سے نکال کر بجلی و آبپاشی کی وزارت کو پہنچائے تاکہ اس رقم میں سے بعض پاور ہا¶سز کو ادائیگیاں کی جائیں اور جلد از جلد بجلی کی پیداوار بڑھا کر لوڈشیڈنگ میں کمی کرکے عوام الناس کو قدرے ریلیف دلایا جائے لیکن نگران وزیراعظم کے اختیارات کا یہ حال ہے کہ وہ وزارت خزانہ سے 20 ارب کی ابتدائی رقم بھی وصول نہیں کر سکے۔

ای پیپر دی نیشن