”دی نیشن“ کی منشیات پر تہلکہ انگیز رپورٹ ۔ حکومت کیلئے لمحہ فکریہ!

May 11, 2014

احمد جمال نظامی

”دی نیشن“ نے گذشتہ روز اپنے صفحہ اول پر منشیات کے عادی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد پر ایک خوبصورت اور جامع رپورٹ شہ سرخی کے ساتھ شائع کی ہے۔ مسٹر جانثار احمد کی اس رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ نشے کے عادی افراد کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ جاری ہے جبکہ حکومت کی توجہ نشے کے عادی افراد کی جانب نہیں اور حکومت دہشتگردی، لاقانونیت، لوڈشیڈنگ اور معاشی عدم استحکام جیسے مسائل میں دھنسی ہوئی ہے۔ دی نیشن کی اس رپورٹ کے مطابق یونائیٹڈ نیشن آفس کے ڈرگز اینڈ کرائم سیکشن میں پاکستان منسٹری آف انٹیریئر اینڈ نارکوٹکس کنٹرول اینڈ پاکستان بیورو آف سٹیٹسکس کے تعاون سے جو اعداد و شمار اکٹھے کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ کم و بیش 67 لاکھ نشے کے عادی افراد پاکستان میں موجود ہیں جن میں 40 لاکھ افراد چرس، 8 لاکھ 60 ہزار ہیروئن استعمال کرتے ہیں جبکہ 3 لاکھ 20 ہزار مختلف قسم کی منشیات کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان نشے کے عادی افراد کی عمریں 25 سے 39 سال تک کی ہیں تاہم چار لاکھ 30 ہزار نشئی سرنج کے ذریعے منشیات کے زہر کو اپنی رگوں میں اتارتے ہیں اور ان میں سے 73 فیصد استعمال شدہ خون آلودہ سرنجیں دوبارہ استعمال کر رہے ہیں جس سے ہیپاٹائٹس اور ایچ آئی وی ایڈز کے مرض میں تیزی سے اضافہ جاری ہے جبکہ دوسری طرف انٹی نارکوٹکس کمپین کیمطابق وطن عزیز میں 2011ءمیں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 81 لاکھ سے زائد تھی جو سالانہ 6 لاکھ منشیات کے عادی افراد کے اضافے کے ساتھ جاری ہے۔ ایک اندازے کیمطابق صرف پشاور کی 11 فیصد آبادی منشیات کی عادی ہے۔ رپورٹ میں ایک سینئر رینجرز آفیسر کا بھی ورژن موجود ہے جس کیمطابق طورخم بارڈر اور دیگر اہم شاہراہوں پر سخت چیکنگ ہوتی ہے مگر منشیات کی سمگلنگ پہاڑی راستوں کے ذریعے ہو رہی ہے۔ افغانستان سے پوست کی کاشت کے بعد ہیروئن پوری دنیا میں سمگل کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے کسی بھی شہر، گا¶ں یا گلی محلے میں چلے جائیں وہاں منشیات کا استعمال کرنے والوں کی ٹولیاں براجمان نظر آئینگی۔ دی نیشن نے جو رپورٹ شائع کی ہے اور اس میں فیصل آباد کی منشیات کے عادی افراد کی جو تصویر نیوز ایجنسی آن لائن کی شائع کی ہے یہ تصویر شہر کے انتہائی پُرہجوم اور بارونق علاقے ستیانہ روڈ جھال چوک کی ہے جہاں دن ہو یا رات، دھوپ ہو یا چھا¶ں منشیات کے عادی افراد کی ٹولیاں ہر وقت نظر آتی ہیں اور ایک ہی سوال ہر کسی کے ذہن میں ہوتا ہے کہ اگر پولیس انہیں گرفتار نہیں کرتی اور ڈرتی ہے کہ کہیں یہ حوالات میں نشہ نہ ملنے پر دم نہ توڑ جائیں تو پھر حکومت کی طرف سے ایسا کردار کیوں ادا نہیں کیا جاتا کہ منشیات کے عادی افراد کی زندگی کی بحالی کیلئے ہر ممکن عملی کردار ادا کیا جائے؟ پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی نارمل زندگی کی بحالی کیلئے بہت کم سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادارے موجود ہیں جیسا کہ رپورٹ میں ظاہر کیا گیا ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں صرف تین ایسے حکومتی ہسپتال ہیں جہاں پر بھی لوگ مطمئن نہیں ہوتے اور پرائیویٹ ہسپتالوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب حکومت کا ہیلتھ کے شعبے میں تمام تر فوکس اس وقت ڈینگی پر ہے لیکن بالعموم اور بالخصوص کسی بھی پالیسی کو مرتب کرتے وقت منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان جیسے زہر قاتل معاشرتی عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ انٹی نارکوٹکس فورس کیمطابق ڈرگ ابیوز کنٹرول ماسٹر پلان کے تحت 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی لاگت سے 2020ءتک ملک کو منشیات سے پاک رکھنے کا ہدف تو ضرور مقرر کیا گیا ہے مگر اس کیلئے کچھ عملی تقاضے بھی اہم ہیں۔ منشیات کی اندرون ملک سمگلنگ کو ہر حال میں روکنا ازبس ضروری ہے۔ اس کیلئے وطن عزیز میں موجود منشیات کے سوداگروں کا نیٹ ورک توڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ محکمہ پولیس آج بھی ہر علاقے میں منشیات فروشوں سے منتھلی وصول کر کے ان کیخلاف قانون کو حرکت میں نہیں لاتی۔ حکومتی سطح سے قانون سازی کے ذریعے تمام ملک کے داخلی اور خارجی راستوں (بارڈرز، پہاڑی اور زمینی و پانی کے راستوں) کے ذریعے سے منشیات کی سمگلنگ کو روکنے کا متعلقین کو سخت ترین ٹاسک دینا ہو گا۔ اسی طرح اگر پولیس کے اعلیٰ افسران تحصیل، ضلع اور شہر کی سطح پر حکومت کی سخت ترین گرفت میں ہوں اور اس ضمن میں انہیں ٹاسک دیا جائے، کوئی شک نہیں وہ منشیات اگر سمگل بھی ہو تو اسکی فروخت کو ہرممکن طریقے سے روک سکتے ہیں۔ حکومت پنجاب نے جس طرح دو سال قبل ڈینگی کیخلاف انقلابی بنیادوں پر قابو پایا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تہہ دل سے ٹھان لیںاور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کیلئے پنجاب میں ہیلتھ سیکٹر کو متحرک کریں تو منشیات کے عادی افراد کی بحالی بھی ہو سکتی ہے اور آئندہ انہیں منشیات میسر بھی نہیں آئیگی۔ دی نیشن کی رپورٹ کے اختتام پر درست لکھا گیا ہے کہ گرفتاریوں، چھاپوں کے باوجود منشیات کے عادی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد نشاندہی کرتی ہے کہ ابھی مزید اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں