یہ موضوع قدرے سنجیدہ ہے اس لئے ہو سکتا ہے آپکو گفتگو بوجھل اور ثقیل محسوس ہو لیکن اپنی تاریخ کا شعور حاصل کرنے کیلئے طبیعت پر جبر کر کے اسے پڑھ جایئے اور غور سے پڑھنے کی زحمت گوارا کیجئے کیونکہ اس مسئلے کو بار بار چھیڑا جاتا ہے اور اسکی آڑ میں بار بار قائداعظمؒ کے بارے میں نہ صرف بدگمانیاں پیدا کی جاتی ہیں بلکہ انہیں ’’غیردانش مند‘‘ بھی ثابت کرنے کی جسارت کی جاتی ہے۔ میری طرح آپکو بھی حیرت ہونی چاہئے کہ جس قائداعظم محمد علی جناح کی دانش، حکمت، بصیرت اور دانش کی دنیا قائل ہے، جس قائداعظمؒ کو مورخین گزشتہ صدی کا سب سے بڑا سیاستدان (Statesman) تسلیم کرتے ہیں اور جس عظیم ہستی کے بارے میں امریکی مورخ سٹینلے والپرٹ یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’وہ انسانی تاریخ کا واحد قائد تھا جس نے بیک وقت تین تاریخی کارنامے سرانجام دیئے یعنی تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا، دنیا کا نقشہ تبدیل کر کے رکھ دیا اور ایک قومی ریاست کے قیام کا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا‘‘۔ اس قائداعظمؒ کے بارے میں نجم سیٹھی اور امرجلیل جیسے لکھاریوں کی رائے یہ ہے کہ اس نے سرکاری زبان کے حوالے سے غیردانش مندانہ اقدام کیا اور ایسی غلطی کا ارتکاب کیا جو ملک ٹوٹنے کا سبب بنی۔ بلاشبہ سیاستدانوں اور قائدین کے فیصلوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بعض قائدین تاریخ کے صفحات میں اتنے بلند و بالا مقام پر متمکن ہوتے ہیں کہ ان کی حیثیت بابائے قوم کی ہوتی ہے، ان کا اخلاص، بصیرت اور قومی مسائل کا ادراک ہر قسم کے شک و شبے سے اس قدر بلند ہوتا ہے کہ ان سے اختلاف کرتے ہوئے اول تو ’’ادب‘‘ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ناگزیر ٹھہرتا ہے، دوم مسئلے کے پس منظر، تاریخی سیاق و سباق اور محرکات کو اچھی طرح سمجھنا لازمی ہوتا ہے۔ آپ پاکستان کے وزراء اعظم اور صدور پر جس طرح چاہیں سطحی تبصروں کے پتھر پھینکتے رہیں لیکن قائداعظمؒ… بابائے قوم، بانی پاکستان کے ساتھ یہ رویہ اور سلوک گستاخی اور بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔
حیرت بلکہ مزید حیرت اور صدمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ابھی پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریباً 68 برس گزرے ہیں، یہ کوئی صدیوں کا سفر نہیں اور ہم نے ابھی سے اپنی مختصر سی تاریخ کو بھلا دیا ہے اور بنیادی حقائق ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ کم سے کم قائداعظمؒ پر تبصروں کی ’’نوازشات فرماتے‘‘ ہوئے تاریخ کے اوراق پڑھ لیا کیجئے تاکہ آپکی تحریریں ابہام اور بدگمانی پھیلانے کا موجب نہ بنیں اور نوجوان نسلوں کو گمراہ نہ کریں۔ تجربہ شاہد ہے کہ جب ایک بار غلط حقائق کا شوشہ چھوڑ دیا جائے تو وہ سینکڑوں وضاحتوں کے باوجود دم نہیں توڑتا۔ نجم سیٹھی صاحب نے تاریخ پڑھے بغیر 1947ء میں سابق صوبہ سرحد میں خان صاحب کی حکومت کی معطلی پر تبصرہ فرما دیا تھا، انہیں زمینی حقائق اور صوبائی اسمبلی کے اندر تبدیلیوں اور غیر مسلمان اراکین اسمبلی کی ہجرت تک کا علم نہ تھا جس کے سبب خان صاحب کی حکومت اقلیت بن چکی تھی، میں نے دوبارہ اعداد و شمار دے کر وضاحت کی لیکن وہ تاثر پوری طرح رفع نہ ہو سکا۔ پھر سیٹھی صاحب نے قائداعظمؒ کے 1948ء میں اردو زبان کو قومی (سرکاری) زبان کے اعلان پر تنقید کرتے ہوئے اسے غلطی قرار دیکر قائداعظمؒ کا قد گھٹانے کی کوشش کی جس کا بھرپور جواب دیا گیا، تاریخی حقائق واضح کئے گئے، انہیں یاد دلایا گیا کہ یہ فیصلہ دستور ساز اسمبلی نے فروری 1948ء میں بذریعہ قانون کیا تھا جس کی نمائندگی قائداعظمؒ نے کی تھی تو وہ مصلحتاً خاموش ہو گئے لیکن بعدازاں تاریخ پاکستان سے پوری طرح نابلد کالم نگار وہی راگ الاپتے رہے اور غلط فہمی کا زہر پھیلاتے رہے۔ بعض معصوم غلط فہمیوں کے پھیلانے سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن بعض تجاہل عارفانہ قسم کی غلطیاں زہر پھیلانے کے مترادف ہوتی ہیں کیونکہ وہ نہ صرف تاریخ کو مسخ کرتی ہیں بلکہ قوم کے باطن میں نفاق کے بیج بھی بوتی ہیں اور قومی ہیروز کی قدر و منزلت بھی گھٹاتی ہیں۔ اس طرح کسی صاحب نے ایک بار شوشہ چھوڑا کہ قائداعظمؒ نے جگن ناتھ آزاد کو پاکستان کا قومی ترانہ لکھنے کا کہا تھا۔ میں نے تحقیق کی تو راز کھلا کہ یہ اس صدی کا سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ بعض حضرات سنی سنائی کے زیراثر یہ بات ٹی وی چینلوں پر بھی کہہ دیتے ہیں اور لکھ بھی دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ایک دانشور سیاستدان کچھ عرصہ قبل اے آر وائی پر کاشف عباسی کے پروگرام میں یہی جھوٹ بول گئے، نہ عباسی نے تردید کی اور نہ ہی کسی اور نے لب کشائی کی۔ میں قوم کے دانشوروں کی قائداعظمؒ کے بارے میں لاعلمی پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور کر بھی کیا سکتا تھا کہ ایک جھوٹ کا زہر لاکھوں کانوں میں گھولا جا چکا تھا۔ میڈیا کے نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔
محترم جناب امر جلیل نے دہائیوں پرانا مسئلہ اپنے مخصوص انداز میں ایک بار پھر چھیڑا ہے۔ نہ جانے پاکستان صوبائیت، فرقہ واریت، لسانیات، رنگ و نسل اور چھوٹے چھوٹے تعصبات کے چنگل سے کب آزاد ہو گا اور ایک مسلمان، متحد اور مضبوط معاشرہ کب بنے گا؟ کہنے کو ہم مسلمان ہیں لیکن وہ تمام تعصبات، نفرتیں، رنگ و نسل، زبان اور کدورتیں جن کی اسلام نفی کرتا ہے اور جن کو حضور نبی کریمﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں دفن کرنے کا حکم دیا تھا، آج بھی ہمارے رویوں، ذہن اور کندھوں پر سوار ہیں۔ اتفاق ہے کہ میں نے امر جلیل صاحب کی تازہ نگارشات نہیں پڑھی تھیں لیکن قائداعظمؒ سے محبت کرنے والوں نے مجھے فون کر کے ان کی وضاحت کرنے کا حکم دیا۔ اس سے قبل کہ میں کچھ عرض کروں پہلے محترم امر جلیل صاحب کے سلسلہ وار کالموں کے چند ٹکڑے ملاحظہ فرما لیں۔ وہ کئی قومی زبانیں تجویز کریں یا کوئی اورنسخہ تجویز کریں یہ ان کا حق ہے اور مجھے اس سے ہرگزکوئی سروکار نہیں میرا مقصد فقط تاریخ اور قائداعظمؒ کے بارے میں ان کے فرمودات کی وضاحت اور تصحیح کرنا ہے۔ جناب امر جلیل فرماتے ہیں ’’پاکستان بننے کے فوراً بعد نہ جانے کس کے مشورے پر قائداعظمؒ نے اعلان کر دیا کہ پاکستان کی ایک ہی زبان ہو گی اور وہ ہے اردو… اس اعلان کے بعد کیا ہوا… یہ کڑوی حقیقت ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگلہ دیش کا بیج اسی روز بوایا گیا تھا جس روز مطلبی اور مکار بیوروکریسی نے قائداعظمؒ سے ایک قومی زبان اردو کا اعلان کروایا تھا‘‘۔ اپنے دوسرے کالم بتاریخ 5 مئی 2015ء میں فرماتے ہیں ’’انیس سو سینتالیس، اڑتالیس کا تلخ تجربہ اب تو شاید ہی ہماری نسلوں کو یاد ہو لیکن اس غیردانشمندانہ تلخ تجربے کی کڑواہٹ ہماری سیاسی سرشت میں سرایت کر گئی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ 1947-48ء میں پاکستان بے شمار مسائل میں گھرا ہوا تھا… منتخب قانون ساز اسمبلی عدم موجود تھی، ایسے میں قومی زبان کا فیصلہ کرنا دانشمندانہ فیصلہ نہیں تھا، بنگالیوں نے تیور دکھائے۔ ڈھاکہ کی سڑکیں بنگالی دانشوروں، ادیبوں، شاعروں، صحافیوں، پروفیسروں، عام آدمیوں کے خون سے لت پت ہو گئیں۔ یہ ہماری تاریخ کا ایک چیپٹر ہے جو کہ نسل در نسل نوجوانوں سے چھپایا گیا ہے۔ قومی زبان کا فیصلہ کرنا قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ ملک کا سربراہ قومی زبان کا فیصلہ خود نہیں کر سکتا۔ پاکستان کو عالم وجود میں آئے ہوئے چند ماہ گزرے تھے، منتخب اسمبلیوں کا نام و نشان نہیں تھا… 1971ء میں پاکستان کے دولخت ہونے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کی کڑیاں 1947-48ء میں زبانوں کے بارے میں غیردانشمندانہ فیصلے سے جا کر ملتی ہیں‘‘۔
یقین کیجئے میں جناب امر جلیل جیسے عالم و فاضل کالم نگار اور سندھی دانشور کے یہ فقرے پڑھ کر حیرت زدہ رہ گیا اور سوچنے لگا کہ اسے اپنی تاریخ سے لاعلمی کہوں یا تجاہل عارفانہ۔ اول تو انہوں نے نہایت فنکارانہ انداز سے ملک ٹوٹنے کے بیج بونے کی ذمہ داری اس شخص پر ڈال دی ہے جس نے کئی دہائیوں کی ہمہ وقت محنت، جدوجہد، خلوص، دیانت، ذہانت اور ایثار سے پاکستان بنایا اور جس کی دیانت، بصیرت اور حکمت عملی نہ صرف دنیا تسلیم کرتی ہے بلکہ ضرب المثل بن چکی ہے۔ امر جلیل صاحب کا خیال ہے کہ جس قائداعظمؒ نے اگست 1947ء میں پاکستان بنایا تھا اسی نے 1948ء میں اس کے ٹوٹنے کی بنیاد رکھی دی۔ لاحول ولا۔ کیا اس دانشوری پر تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر جس دانشور کو یہ بھی علم نہیں کہ چاروں صوبوں میں منتخب اسمبلیاں موجود تھیں، قانون سازی کا عمل جاری تھا اور قومی اسمبلی یا دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس گیارہ اگست کو ہوا تھا جس میں اراکین اسمبلی نے اپنے دستخط کئے تھے اور قائداعظمؒ کو دستور ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیا تھا۔ …(جاری)…