7 اور 8 مئی کی خبروں میں بتایا گیا تھا کہ ’’ پانامہ لِیکس کے انکشافات کی تحقیقات کے سِلسلے میں جنابِ وزیراعظم اور اُن کے اتحادیوں نے اپوزیشن جماعتوں کے "Terms Of Reference" ( ٹی او آرز) مسترد کر دئیے ہیں البتہ وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اپوزیشن لیڈروں سے رابطے رکھیں گے‘‘۔ اِس طرح کی خبریں بھی آئی تھیں کہ ’’جنابِ وزیراعظم اپوزیشن لیڈروں سے "Dictation" (احکامات/ ہدایات) نہیں لیں گے اور وہ اپنے اِس مؤقف پر بھی اڑے ہُوئے ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے خاندان کے اثاثوں کے بارے میں پارلیمنٹ میں وضاحت نہیں کریں گے‘‘۔ 9 مئی کو سینٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاس تھے۔ قائدِین حزبِ اختلاف بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اور سیّد خورشید شاہ کی قیادت میں اپوزیشن کے تمام ارکان نے دونوں اجلاسوں کا بائیکاٹ کئے رکھا اور اعلان کِیا کہ ’’جب تک وزیراعظم صاحب خود آ کر دونوں ایوانوں کو مطمئن نہیں کریں گے اپوزیشن کے تمام ارکان بھی کارروائی میں حِصّہ نہیں گے‘‘۔
جنابِ وزیراعظم کی حکومت اور متحدہ اپوزیشن میں ہونے والی ’’اعصابی جنگ‘‘ کا دائرہ اور کِتنا وسیع ہو جائے گا؟ کوئی نہیں جانتا۔ شاید دونوں فریق بھی نہیں جانتے ہوں گے۔ دونوں چِیفس چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی (سیاستدانوں بلکہ بدترین جمہوریت کے علمبردار سیاستدانوں کی خواہش کے مطابق) فی الحال اپنے اپنے دائرہ کار میں ہیں۔ جنابِ وزیراعظم غصّہ آلود لہجے میں عام جلسوں میں ’’ترقی کی راہ میں رکاوٹ احتجاج کرنے والے لیڈروں کو ’’دہشت گرد ‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ شاید اِسی لئے وہ پارلیمنٹ میںاُن دہشت گردوں‘‘ کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
سکول، کالج اور یونیورسٹی کی کلاسسز میں طلبہ اور طالبات کی حاضریاں کم ہو جائیں تو کہا جاتا ہے کہ ’’ اُن کے "Lectures Short" ہوگئے ہیں لہٰذا وہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اور یونیورسٹی کے سالانہ امتحانات میں شرکت کرنے اہل نہیں رہے‘‘۔ پارلیمنٹ کے ارکان زیادہ مدت تک غیر حاضر نہیں رہ سکتے۔ حاضری لگا کر اجلاس سے غائب ہونے کا وتِیرہ اپنا لیں تو الگ بات ہے۔ جنابِ وزیراعظم سال میں زیادہ سے زیادہ کِتنے دن غیر حاضر (غائب) رہ سکتے ہیں مجھے نہیں معلوم؟ کیا عام انتخابات میں عوام کا بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم کا فرض نہیں بنتا کہ وہ پارلیمنٹ سے اپنے ’’لیکچرز شارٹ‘‘ نہ ہونے دیں۔ ذمہ داری کو فرض کہا جاتا ہے۔ ایک فرض کو کہتے ہیں ’’فرض کفایہ‘‘ یعنی وہ فرض جو جماعت میں کسی ایک شخص کے ادا کرنے سے سب کی طرف سے ادا ہو جائے ‘‘ جیسے نمازِ جنازہ۔ کیا فرماتے ہیں مولانا فضل اُلرحمن ، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور فیڈرل شریعت کورٹ کے چیف جسٹس جناب ریاض احمد خان بیچ اِس مسئلے کے کہ ’’کیا اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے پارلیمنٹ میں تشریف لے جانے کے فرض کو ’’فرضِ کفایہ‘‘ کہا جا سکتا ہے؟‘‘ اور اِس مسئلے پر بھی عوام کی راہنمائی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’کیا موجودہ حکومت کے خلاف اور عوام کے حق میں احتجاج کرنے والے سیاستدان بھی ’’دہشت گرد‘‘ ہیں؟ کیا اِس طرح کے دہشت گردوں کے خلاف بھی ’’ضرب اُلعضب‘‘ قِسم کا آپریشن جائز ہو گا؟ اور یہ فتویٰ بھی فوراً دِیا جائے کہ ’’ کیا واقعی پاکستان میں غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد لوگوں کی قسمت کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے لِکھا ہے یا اللہ تعالیٰ کے نائب بن کر حکومت کرنے والے خُلفاء نے؟ اور کیا قوم کی دولت لوٹنے والی ارب پتی اور کھرپ پتی بااثر شخصیات کا اِس دارِ فانی میں احتساب نہیں ہو گا؟
صدر ممنون حسین بھی چُپ ہیں دو ماہ قبل اُنہوں نے ایوانِ صدر میں اپنے پسندیدہ شاعروں کو طلب کر کے اُن کی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ڈیوٹی لگائی تھی۔ وہ شاعر کہاںہیں؟ کیا وہ بھوکے، ننگے اور بے گھر لوگوں کی ملاقاتیں کر کے انہیں ایسے اشعار نہیں سنا سکتے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کا مسئلہ خود بخود حل ہو جائے ؟ جنابِ وزیراعظم نے تیسری بار وزارتِ عظمی کا حلف اٹھانے سے کچھ دن پہلے 28 مئی 2013ء کو یوم تکبیر کے موقع پر ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کی صدارت میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ’’پہلے مَیں نے ایٹمی دھماکا کِیا تھا اب معاشی دھماکا کروں گا‘‘۔ 28 مئی کو جنابِ وزیراعظم کے اس وعدے کو تین سال ہو جائیں گے لیکن اُس سے پہلے ہی پانامہ لِیکس نے اُن کی اور اُن کے خاندان کی شہرت کا دھماکا کر دِیا ہے؟ قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق دوبار جنابِ وزیراعظم کی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہُوئے اور اُن کی سپیکرشپ بھی جنابِ وزیراعظم کی دَین ہے۔ سردار صاحب اِس شعر کی عملی تفسیر ہیں کہ…؎
’’ اپنی جاں نذر کروں، اپنی وفا پیش کروں!
قوم کے مردِ مجاہد، تجھے کیا پیش کروں؟‘‘
کاش سردار ایاز صادق عوام کے حقوق کے امینؔ بن کر وزیراعظم ہائوس کے پتے پر ( درخواستگار بن کرہی سہی) ایک مختصر سا خط ارسال کرنے کی پوزیشن میں ہوتے کہ ’’اے قائدِ جمہوریت! کبھی نہ کبھی تو آپ قومی اسمبلی کے ایوان میں قدم رنجہ فرمائیں۔ ’’شاعرِ سیاست‘‘ نے تو سردار صاحب کی طرف سے جنابِ وزیراعظم کے لئے پیشگی یہ ماہِیا لِکھ دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں…
’’ تینوں مِلنے دا چاء ماہِیا!
جھگڑے، جھیڑے چھڈّ
کدی ساڈے ویہڑے آ ماہِیا !‘‘
چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی سیاست کی جان اُس بٹیرے میں ہے جو جنابِ زرداری کے ہاتھ میں ہے وگرنہ میاں صاحب بہت ہی جاندار سیاست دان ہیں۔ میاں صاحب کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’مَیں نے آئین کی 21 ویں ترمیم کے حق میں اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دِیا کیونکہ میرا ووٹ میری پارٹی (جنابِ زرداری کی پارٹی) کی امانت ہے۔ مَیں نے اپنے صحافی دوست سیّد ضمیر نفیسؔ سے پوچھا تو اُنہوں نے سادگی سے کہا کہ ’’میرا تو میاں رضا ربانی صاحب سے کوئی تنازع ہی نہیں ہے‘‘۔ جنابِ زرداری نے فی الحال میاں رضا ربانی کو وزیراعظم میاں نواز شریف کی ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘کا حکم نہیں دِیا۔ میاں نواز شریف میاں رضا ربانی کی بہت عزت کرتے ہیں۔ میں تصّور میں وہ منظر دیکھ رہا ہوں کہ ایک دِن اچانک جنابِ وزیراعظم دَورۂ سینٹ پر ایوان میں داخل ہوں گے تو میاں رضا ربانی اُن کا استقبال کرتے ہُوئے کہیں گے…؎
’’ بعد مُدّت کے لائے ہو تشریف
خُوش تو ہیں آپ کے مزاج شریف‘‘
مَیں تصّور میں یہ بھی دیکھ رہا ہُوں کہ ایک دِن بیرسٹر چودھری اعتزاز احسن اور سیّد خورشید شاہ کی طرف سے جنابِ وزیراعظم کی خدمت میں ایک مشترکہ درخواست ارسال کردی جائے گی عنوان ہوگا "Most Wanted in The Parliament" اور مؤدبانہ مضمون یہ ہوگا کہ’’ محترم جناب منتخب وزیراعظم صاحب! خُدا آپ کا اقبال بلند کرے! براہِ مہربانی اپنی گوناگوں مصروفیات میں سے ایک دِن ایوانِ بالا اور ایک دِن ایوان زیریں ضرور تشریف لائیں ۔ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ دونوں ایوانوں میں آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ صِرف پانامہ لِیکس کے انکشافات کے مطابق انتہائی ادب سے آپ کے خاندان کی ترقی کا راز معلوم کِیا جائے گا‘‘۔ اُس کے بعد کیا ہوگا؟ میرے تصّور کی بیٹری فیل ہوگئی۔