موجودہ اقتصادی پیکیج آج کل خصوصی توجہ کا مرکز اور گفتگو کاموضوع بنا ہوا ہے۔ مختصراً اس وقت کسٹم ڈیوٹی متعدد آئٹمز پر ڈیوٹی کم کرنے سے 6.5 فیصد سے گھٹ کر 35 فیصد ہو گئی ہے۔ لیکن ساتھ ہی کئی آئٹمز پر ایکسائز کی ادلتی بدلتی شرح کے باعث سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد ہے جو دنیا بھر میں ٹیکسیشن کے میدان میں ایک غیر معمولی بات ہے۔ ان مِلے جُلے ٹیکسوں کے نتیجے میں ٹیکسوں میں اضافہ ہوتا ہے جیسے درآمدی سپیئر پارٹس اور پرزوں پر کسٹم ڈیوٹی تو کم کر دی گئی لیکن انہی آلات میں استعمال ہونے والے خام مال اور مقامی طور پر تیار ہونے والی ان سے متعلقہ اشیاء پر ڈیوٹی حسب سابق زیادہ ہی نہیں بلکہ کئی صورتوں میں اس میں مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔عام قاعدہ ہے جہاں کسی آئٹم پر ایکسائز ڈیوٹی عائد ہو تو اس پر سیلز ٹیکس لاگو نہیں ہوتا اور اسی طرح اگر کسی شے پر سیلز ٹیکس ہو تو پھر ایکسائز ڈیوٹی نہیں ہوتی۔ پاکستان میں بے شمار اشیاء پر یہ دونوں ان ڈائریکٹ ٹیکس لاگو ہیں۔ باوجودیکہ حکومت اس صورتحال کا بار بار دوبارہ جائزہ لیتی رہی‘ صورتحال زیادہ تر جوں کی توں موجود ہے۔
ان بے قاعدگیوں کا ازالہ ایک کمیٹی نے کرنا تھا جو بطور خاص اسی مقصد کے لئے قائم کی گئی تھی یا پھر ٹیرف کمشن نے یہ کام کرنا تھا جو تاحال نہیں کیا جا سکا۔ پیکج مجموعی طور پر انڈسٹری فرینڈلی سے زیادہ ٹریڈ فرینڈلی ہے جو سمگلنگ اور انڈر انوائسنگ کی حوصلہ افزائی کرتا اور انہیں بڑھاوا دیتا ہے۔ اس سے سرمایہ کاری‘ مکمل روزگاری پیداوار میں بہتری اور برآمدات میں اضافے کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی گذشتہ 55 سال کی اکنامک ہسٹری میں انڈسٹری کی ترقی و ترویج کے لئے محض زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہوا۔
1970ء کے دوران قومیائی گئی دس بنیادی صنعتیں بشمول اسٹیل اور انجینئرنگ انڈسٹریز آج جس زبوں حالی کا شکار ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یہ تمام ہائی ٹیک‘ ہائی ویلیو ایڈڈ اور ہائی والیوم انڈسٹریز ہیں اور ان میں اپنی فاضل پیداوار برآمد کر کے موجودہ روایتی محدود ایکسپورٹ سوچ کے مقابلے میں زرمبادلہ کمانے کا پوٹینشل بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس وقت جی ڈی پی کی اونچی شرح‘ ٹریڈ گیپ کا لاکھوں کا خسارہ اور ادائیگیوں کی خراب صورتحال کے باعث ملک کی معاشی صورت حال کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں۔ ان مسائل سے صرف انڈسٹریل پیکیج کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔ ٹریڈ پیکج سے نہیں جو موجودہ اکنامک پیکیج ہے۔
ٹیکس کون ادا نہیں کرتا؟
ٹریڈ سیکٹر میں ٹیکس بچانے کا رجحان بہت زیادہ ہے جو درحقیقت منظم اور مربوط انڈسٹری کے مقابلے میں زیادہ تر غیر منظم ہے۔ اشرافیہ شاذ و نادر ہی کوئی ٹیکس دیتی ہے اس ضمن میں زمیندار سب سے پیچھے ہیں آمدن سے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ اشرافیہ کی آمدن کاسب سے بڑا ذریعہ سیاست کا کاروبار ہے۔ اصلاح احوال کے لئے اسکے درمیان جلد یا بدیر ایک لائن کھینچنی ہو گی۔ منشیات مافیا بھی ٹیکس نہیں دیتا۔ اس کی ذمہ داری ہماری ٹیکس کی سرحدوں کی نگہبانی کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں۔ پھر ایک غیر منظم سیکٹر ایسا ہے جس کے پاس سٹریٹ پاور ہے اور کوئی ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انڈر انوائسنگ اور سمگلنگ کے دھندے میں ملوث ہوتے ہیں۔ ان کے بقول چونکہ ان کے لئے حساب کتاب کے کھاتے رکھنا ممکن نہیں ہوتا‘ اس لئے وہ ٹیکس کے تعین اور ادائیگی کا اہتمام نہیں کر سکتے ہیں۔ یقینی بات ہے کہ اگر وہ کماتے ہیں تو اس آمدن پر ٹیکس کا تعین کرنے میں انہیں کیا امر مانع ہے؟ اس تلخ حقیقت کا ادراک اور اصلاح ضروری ہے تاکہ ٹیکس کے نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیا اور چور راستوں کو بند کیا جا سکے۔ ٹیکس کی وصولیاں بڑھانے کا یہی واحد راستہ ہے۔
مسابقتی عدم مساوات
موجودہ صورتحال کے تناظر میں ہمارے ٹیکس نظام کی خامیاں دوسرے ملکوں کے ٹیکس سسٹم کے مقابلے میں پوری طرح کھل کر نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہیں بالخصوص پڑوسی ملک کے ساتھ موازنے کے بعدجس کی پاکستان کے ساتھ جلد یا بدیر مسابقت اور فری ٹریڈ پالیسی متوقع ہے۔ بھارت میں سیلز ٹیکس کی شرح عام طور پر کم اور مختلف صوبوں میں اس کی شرح الگ الگ ہے۔ ان کے ہاں قیاسی ٹیکس نہیں ہوتا جبکہ پاکستان میں ذریعہ آمدن پر قیاسی ٹیکس (PRESUMPTIVE) موجود ہے۔ ان کے ہاں نہ صرف خام مال کا بڑا حصہ بلکہ مشینیں اور ان کے پرزے بھی مقامی طور پر دستیاب ہیں جبکہ پاکستان کا انحصار کلیتہً درآمدات پر ہے۔ ان کے ہاں شرح سود 10 تا 13.5 فیصد ہے پاکستان میں یہ معمولی سی کمی کے بعد 16 تا 18 فیصد ہے۔ پاکستان کا کم ترین ریٹ انڈیا کا بلند ترین ہے۔
انڈیا کی اکنامی کو بھرپور حکومتی امداد اور اعانت حاصل ہونے کے باعث صارفین کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں بلکہ صارفین ریلیف کے بجائے حقیقتاً دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان کے پیداواری اخراجات جیسے پانی‘ بجلی اور گیس کے ریٹ پاکستان کے مقابلے میں بہت سستے ہیں جو لاگت اور قیمت میں اضافے کا ایک بڑا سبب بنتے ہیں۔ انڈیا اپنی آبادی کے لحاظ سے پاکستان سے سات گنا بڑی اکنامی ہے‘ جس کے باعث اسے ہر پروڈکٹ کی وسیع پیمانے پر کھپت کا فائدہ حاصل ہے۔
پاکستان کے مقابلے میں دوسرے کئی ملکوں میں ایسی ہی صورت حال موجود ہے جہاں مقامی انڈسٹری کو ترقی کے لئے کئی مراعات حاصل ہیں بالخصوص جہاں اگر ویلیو ایڈیشن کا سوال جڑا ہوتو اس پر غیرضروری ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے سے پرہیز کیا جاتا ہے۔
یہ مندرجہ بالا چند بنیادی اختلافات ہیں جن کے بارے امید ہے حکمت عملی تیار کرنے اور منصوبہ بندی کرنے والوں کو ان کا بخوبی ادراک ہو گا۔ ٹیکس دہندگان بجا طور پر آنے والے بجٹ میں نمایاں تبدیلیوں کی توقع کر رہے ہیں۔ ’انڈسٹری فرینڈلی‘ سوچ کے بغیر کسی اکنامک پیکج سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوں گے۔
مالیاتی استحکام
مالیاتی استحکام قومی بزنس کے استحکام کی کنجی ہے۔ اقتصادی اداروں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے۔ پاکستان میں پچاس سے زائد کمرشل بنک ہیں جو اربوں کھربوں کا بزنس کرتے ہیں۔ ان میں 21 پاکستانی اور 21 غیر ملکی بنک ہیں۔ 33 لیزنگ کمپنیاں ہیں‘ 17 مضاربہ کمپنیاں ہیں‘ میوچل فنڈ اور انوسٹمنٹ بنک ہیں‘ انشورنس کمپنیاں ہیں۔ یہ سارے مالیاتی ادارے کھربوں کا لین دین کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے عالمی معیار پر کوئی سیکٹر پورا نہیں اترتا۔ اس کے باعث ان میں توازن اور استحکام پیدا کرنے کے لئے نئی اپروچ کی ضرورت ناگزیر ہے۔ معیشت کی وسعت اور پھیلاؤ کے پیش نظر مختلف اداروں کو باہم اکٹھا کرنے اور ایک دوسرے میں ضم کر کے ان کی تعداد کم کرنے کی ایک نئی سوچ اور ضرورت کا احساس دنیا میں پروان چڑھ رہا ہے۔ پاکستان کو بھی اس کی ضرورت ہے۔ یہ کام جتنی جلد کر لیا جائے‘ بہتر نتائج اور پیداواری صلاحیت اور ذرائع کے بھرپور استعمال کے لئے مفید ہو گا بصورت دیگر معیشت میں پیدا ہونے والے بگاڑ اور زوال کی اصلاح مشکل ہو گی۔ جب تک اداروں کے باہم ادغام اور ضم ہونے کا عمل مکمل نہیں ہوتا‘ مالیاتی اداروں کی کارکردگی کو منظم اور مربوط بنایا جائے۔ یہ ہمارے ملک کی اقتصادی ضرورتوں کو پورا کرے گی اور ہم اپنی معیشت کو مربوط کرنے کے علاوہ دنیا کی مالیاتی ایجنسیوں سے باوقار روابط استوار کر سکتے ہیں۔ یہ فنڈز پاکستان کی سماجی‘ معاشی اور سیاسی خودانحصاری کو یقینی بنانے میں مدد دیں گے… ع
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد