افغان فوج پر ”را“ کا بوجھ اور نااہلی کا غصہ پاکستان پر؟

21 اپریل 2017ءکو شمالی افغان صوبے بلخ میں تقریباً 10 افراد نے جو افغان فوج کی وردیوں میں ملبوس تھے‘ تین فوجی گاڑیوں میں سوار ہو کر تمام ناکوں سے گزرتے ہوئے افغان فوج کی 209 ویں کور ہیڈ کوارٹر پہنچے۔ ان دس میں سے 2 نے خود کش جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ ان دونوں نے خود کو مرکزی دروازے پر پہنچتے ہی خود کو اڑا لیا۔ باقی خود کار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ ایک نے مسجد کا رخ کیا اور وہاں موجود افغان فوجیوں کو نشانہ بنایا دوسرا گروپ کھانے کےلئے بنائے گئے وسیع ہال میں داخل ہو گیا۔ موقع پر موجود عینی شاہدین کے مطابق جمعہ کی نماز ادا کرنے کےلئے بے شمار فوجی مسجد کے اندر اور باہر صحن میں موجود تھے۔ جنہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ کھانے کا وسیع ہال بھی کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ حملہ آورں کی فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ کوئی بھاگ ہی نہیں سکا۔ 50 سے زیادہ افغان فوجی تو مرکزی گیٹ پر ہونیوالے خود کش دھماکوں کا فوری نشانہ بن گئے تھے۔ باقی بھی درجنوں کے حساب سے فائرنگ کا شکار ہوتے رہے۔ حفاظت پر معمور افغان فوجیوں نے بھرپور مزاحمت کی اسکے باوجود لڑائی شام گئے تک جاری رہی۔ سارے حملہ آور مارے گئے اور (اطلاع کے مطابق) ایک دہشت گرد کو زندہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس وقت تک افغان حکومت کی طرف سے جاری کی گئی خبر کے مطابق 160 افغان فوجی جان سے ہاتھ دھو چکے تھے۔ خبر کے آخر میں مختصر سا جملہ شامل تھا کہ مارے گئے افغان فوجیوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ امریکی میڈیا نے 200 اموات بتائیں جبکہ افغان طالبان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے 500 سے زیادہ افغان فوجی مارنے کا دعویٰ کیا۔ دوسرے روز 22 اپریل کو صوبہ بلخ کے صوبائی دارالحکومت مزار شریف سے امریکی میڈیا نے خبر جاری کی کہ افغان فوجیوں کی آخری رسومات کےلئے تابوت کم پڑ گئے ہیں۔ دو روز بعد وائس آف امریکہ نے افغان ٹی وی کے حوالے سے مرنے والوں کی تعداد 250 سے زیادہ بتانے پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے افغانستان کی داخلی صورتحال کو تاریخی طور پر بدترین قرار دیا اور افغان حکومت کی طرف سے حملے کا شکار ہونے والے افغان فوجیوں کی تعداد چھپانے کو کابل کی بہت بڑی ناکامی قرار دے دیا جبکہ افغان ٹی وی دس افغان صوبوں سے تعلق رکھنے والے 260 فوجیوں کی تفصیلات نشتر کرتا رہا جس کے تابوت انکے آبائی علاقوں میں روانہ کئے گئے تھے۔ دوسری طرف افغان طالبان اپنے حملے کو تاریخ کی سب سے بڑی کارروائی قرار دے رہے تھے۔ افغان سلامتی کی کمانڈ افغان فوج کو سونپتے ہوئے امریکی جرنیلوں نے افغان فوجیوں کی عسکری صلاحیتوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جن کی تربیت پر گزشتہ ایک دہائی کے دوران اربوں ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ انہیں جدید ترین اسلحہ اور مواصلات کے نظام سے لیس کیا گیا تھا اور اب امریکی ہی بتا رہے ہیں کہ امریکی تربیت یافتہ افغان فوجیوں میں لڑنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ پوری فوج میں سے 40 فیصد حصہ محض کاغذوں تک محدودہے جن کی تنخواہ افغان جرنیل اور وزیر اپنی جیبوں میں ڈالتے ہیں۔ ”گھوسٹ“ فوجیوں کے نام پر جاری ہونے والا اسلحہ وار لارڈز‘ ناجائز اسلحہ کے بیوپاریوں کے ہاتھوں میں بکتا ہوا کچھ افغانستان سے باہر چلا جاتا ہے باقی افغان طالبان کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ بہت سے افغان نوجوان جدید اسلحہ کے حصول کےلئے افغان فوج کا حصہ بنتے ہیں اور موقع ملتے ہی اسلحہ لےکر رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ صوبہ بلخ کی مزار شریف میں مرکزی چھا¶نی پر افغان طالبان کا حملہ بھی افغان فوج کی انہی کمزوریوں کا نتیجہ ہے جس کے بعد افغان فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع سے استعفا لے لیا گیا۔ 209 ویں کور کے کمانڈر سمیت دیگر بہت سے افغان جرنیلوں کو اپنے عہدوں سے برخاست کر دیا گیا۔ اب امریکی تحقیقات کر رہے ہیں کہ افغان طالبان سکیورٹی کےلئے قائم تمام ناکے عبور کرتے ہوئے فوجی ہیڈ کوارٹر کے مرکزی دروازے تک کیسے پہنچے۔ وہاں سے داخل ہونے کے بعد انکی کھانے کے ہال اور مسجد تک رہنمائی کس نے کی کیونکہ مسجد اور کھانے کےلئے بنائی گئی ”میس“ کی عمارت گیٹ سے داخل ہونے کے بعد چھا¶نی کے آخر میں ہے جہاں پہنچنے کےلئے اندر کے راستوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔ تحقیقات کرنےوالوں کو یقین ہے کہ افغان طالبان حملہ آوروں کو مزار شریف کی چھا¶نی کے اندر سے ایک سے زیادہ افراد کی مدد حاصل تھی۔تجزیہ کار اس بات پر بھی حیران ہیں کہ افغان طالبان نے مزار شریف کی چھا¶نی میں موجود ان امریکی فوجیوں کو نشانہ نہیں بنایا جو تربیتی و مشاورتی مقاصد کےلئے وہاں موجود تھے اور ان کا دفتری و رہائشی علاقہ داخلی دروازے سے زیادہ قریب تھا۔ امریکی ڈیفنس سیکرٹری جم میٹس نے آئندہ آنے والے مہینوں کو افغان فوج اور وہاں موجود امریکی و نیٹو افواج کےلئے مشکل قرار دیا ہے۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ افغان حکومت کو پاکستان پر کس بات کا غصہ ہے بلاشبہ 21 اپریل کو مزار شریف کی چھا¶نی پر ہونے والا حملہ انتہائی تباہ کن ہے جس کی پاکستان نے بھرپور مذمت کی ہے۔ اس حملے کے بعد نہ تو واشنگٹن اور پینٹاگان کی طرف سے پاکستان سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے نہ ہی مغربی میڈیا میں کسی دفاعی مبصر نے ماضی کی طرف پاکستان پر افغان طالبان کی مدد کا الزام لگایا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقوں میں موجود ان تمام خفیہ ٹھکانوں کو بلاتفریق تباہ کر دیا ہے علاوہ ازیں امریکی و دیگر مغربی ممالک کے فوجی کمانڈر اپنے پاکستانی دوروں کے موقع پر افغان سرحد سے ملحقہ ان تمام ٹھکانوں کا ازخود جائزہ ہی نہیں لے چکے دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کی کامیابیوں پر داد تحسین بھی دیتے رہے ہیں تو پھر یوں اچانک افغانستان کی اس فوج کی طرف سے 5 مئی کو صبح چمن کے بارڈر پر اچانک بلااشتعال گولہ باری اور فائرنگ کس لئے؟ اس فائرنگ و مارٹر گولہ باری کے نتیجے میں ایک جوان سمیت 18 افراد شہید اور پچاس کے قریب زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ مردم شماری کےلئے جانے والے سرکاری اہلکاروں پر کیا گیا۔ جس کی زد میں آنے والوں میں خواتین و بچے بھی شامل تھے۔ بعدازاں خیپر پختونخواہ میں بھی چمن کی طرز پر گولہ باری شروع کر دی گئی جس میں پاکستانی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ پاک فوج نے افغان اشتعال انگیزیوں کا کس طرح جواب دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ افغان فوج پاکستان کو نشانہ بنا رہی ہے جس کی نااہلی اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی بدولت افغان فوج کا سربراہ اور وزیر دفاع سمیت درجنوں جرنیل عہدوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور نشانہ اس ملک کو بنایا جا رہا ہے جو ناصرف ایٹمی اسلحہ سے لیس ہے جس کی فوج گزشتہ پندرہ برسوں سے عملاً حالت جنگ میں ہے تو کیا یہ افغان فوج ہی ہے جو پاکستانی چوکیوں پر حملہ کر رہی ہے؟ جس کی نااہلیوں کی وجہ سے جنوبی افغان صوبے ہلمند کے اہم ڈسٹرکٹ سنگین پر 23 مارچ 2017ءکو طالبان نے قبضہ کر لیا۔ جسے امریکہ میں کابل کےلئے بہت بڑا دھچکا قرار دیا گیا۔ ہلمند پر کنٹرول برقرار رکھنے کےلئے ماضی میں نیٹو و برطانوی افواج نے بے شمار جانی قربانیاں دی تھیں اور اب بادل نخواستہ امریکی افواج کو 29 اپریل 2017ءکو ہلمند صوبے کا انتظامی و حفاظتی کنٹرول افغان فوج سے واپس لینا پڑا جہاں ابھی بھی لڑائی جاری ہے تو ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی افغان فوج کے بس کی بات نہیں انکے پیچھے افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس ہے اور ایس ڈی ایس پر بھارتی کا سکہ چلتا ہے۔ شاید بھارت لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کی طرح پاک فوج کو مغربی بارڈر پر بھی مصروف رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے دنیا کی توجہ ہٹانا ہے یا پاکستان کی داخلی صورت حال میں فوج کا اہم کردار اس کی اہم وجہ ہے؟ یہ فیصلہ قارئین خود کر لیں۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...