کچھ دن قبل ایک خبر ٹی وی پر چلی جس میں اسلام آباد ائرپورٹ پر ناروے جانے والی دو مسافر خواتین کو مارا پیٹا گیا اور انہیں بالوں سے گھیسٹا گیا۔ مسافر خواتین کو سرکاری اہل کار خواتین نے مارا پیٹا۔ اس معاملے کی انکوائری ہوئی اور جرم ثابت ہونے پر مار کٹائی کرنے والی ملازم خاتون کو ملازمت سے برطرف کر دی گئی۔ اس قسم کے واقعات دیگر محکموں میں بھی ہوتے ہیں۔ ان کی ویڈیوز بھی وائرل ہوتی ہیں اور لوگ ان پر تبصرے فرماتے ہیں یعنی جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ہمارے ہاں ادارے کیا کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے ہاں نظام نام کی کوئی چیز ہے؟ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں لڑائی مارکٹائی، دنگافساد حتی کہ قتل وغارت کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ گھروں میں کام کرنے والی بچیوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ برداشت، صبروتحمل، بردباری اور حوصلے جیسے الفاظ موٹی موٹی لغاتوں میں تو مل جائیں گے لیکن ہمارے معاشرے میں ان الفاظ کی عملی صورت کم سے کم دیکھنے میںآ رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی چینل پر گلبرگ ایریا لائنوں کے پاس واقع گورنمنٹ نجف ہائی سکول کے حوالے سے ایک رپورٹ دکھائی گئی ہے، جس میں چند اساتذہ اپنے طلبا پر ڈنڈے برساتے نظر آتے ہیں اور حکومت کی طرف سے دیئے گئے سلوگن ”مار نہیں، پیار“ کی بجائے ”پیار نہیں مار“ کا عملی ثبوت دیتے نظر آتے ہیں۔ چند سال قبل میرے بیٹے کا اس سکول میں امتحانی سینٹر بنا تھا۔ میں کئی دن تک بیٹے کو چھوڑنے کے لئے اس سکول میں جاتا رہا۔ چوکیدار گیٹ پر مستعد دکھائی دیتا اور دیگر اساتذہ بھی امیدواروں کو چیک کرتے نظر آتے۔ مراد یہ کہ اچھا خاصا ڈسپلن تھا۔ میں اس سکول کے قریبی علاقے میں رہتاہوں۔ اس لئے مجھے اس سکول میں بھی کئی بار جانے کا بھی اتفاق ہوا ہے۔ ٹی وی رپورٹ دیکھ کر کرید ہوئی کہ میں اس سکول میں ہونے والے تشدد کے واقعے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر سکوں۔ چنانچہ میں سکول سے تعلق رکھنے والے اساتذہ اور دائیں بائیں رہائش رکھنے والے والدین سے ملا۔ انہوں نے بتایا کہ نجف ہائی سکول گلبرگ کو چند اساتذہ نے تھانہ بنایا ہوا ہے۔ انہوں نے بچوں کو اتنا مارا پیٹا ہے کہ کسی بچے کے دانت ٹوٹ گئے ہیں اور کسی کی ٹانگوں پر اتنے زخم آئے ہیں کہ ٹانکے لگوائے گئے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان اساتذہ نے استاد بننے کےلئے بی اے بی ایڈ اور ایم اے ایم ایڈ وغیرہ کرنے کا لمبا پینڈا طے کیا۔ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ پولیس میں بھرتی ہو جاتے اور جرائم پیشہ لوگوں کو پکڑ کر انہیں مار مار کر ادھ موا کرتے اور ان کی چمڑی ادھیڑتے۔ اسلام میں غصہ پی جانے کا حکم ہے لیکن ہمارے ہاں شاید خون پی جانے پر عمل کیا جاتا ہے۔ کہانی یوں ہے کہ ہیڈماسٹر صاحب نے بچوں پر تشدد کرنے والے اساتذہ کے بارے میںاپنے محکمے کے افسران کو لکھ کر بھیج دیا کہ یہ غریبوں کے بچوں کے لئے نجف ہائی سکول ہے، شاہی قلعہ نہیں ہے کہ بچوں کو آمریت کے دور کے مخالف عناصر کی طرح چھتوں سے لٹکایا جائے اور پھر ان کے برہنہ جسموں پر جلادوں کی طرح بید برسائے جائیں۔ میں نے سکول چلانا ہے، تھانہ نہیں چلانا، لہٰذا ان اساتذہ کی قومی خدمات سے کم از کم میں فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ براہ ِکرم ان کی جلادانہ خدمات سرنڈر کی جائیں۔ محکمہ تعلیم کے افسران نے پھرتیاں دکھائیں اور فوراً ہیڈماسٹر کو ٹرانسفر کرکے ضلع بدر کر دیا۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ مار پیٹ کرنے والے اساتذہ خاص صلاحیتوں کے مالک ہیں اور انہوں نے بچوں کو مار مار کر ان پر دہشت بھی بٹھائی ہے اور اس محنت سے خاصی عزت بھی کمائی ہے لہٰذا ان محنتی اور متشدد لوگوں کی خدمات سے مزید فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ قوم کے نونہال جب مارکیٹ میں پیش ہوں تو وہ ببانگِ دہل کہہ سکیں کہ انہیں فلاں فلاں استاد نے مار مار کر سیدھا کیا ہے اور ہیرا بنا دیا ہے۔ سنا ہے کہ ہیڈماسٹر صاحب نے ان سنگ دل اساتذہ سے کہا ہے کہ اسلام میں تو جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کا حکم آیا ہے۔ بچے تو انسان ہیں۔ ان پر شفقت فرمائیں اور انہیں اچھے انداز میں پڑھائیں تاکہ سکول کا تدریسی ماحول خراب نہ ہو۔ مارپیٹ کرنے والے اساتذہ نے کہا ہو گا کہ ہمارے سکول میں آنے والی طلبا کی قوم باتوں سے نہیں مانتی۔ یہ لاتوں کے بھوت ہیں ان سے متشدد اساتذہ کا شایدیہ م¶قف تھا کہ بچوں کو مار مار کر دُنبہ وغیرہ نہ بنایا جائے یا سیدھا نہ کیا جائے تو قوم کے نونہالان روئی کی طرح نرم نرم رہ جاتے ہیں۔ ہم نے ابھی اپنے ملک کو ترقی کے آسمانوں تک لے جانا ہے، اس لئے اسے سخت جان اور اینٹ روڑوں کی طرح پختہ انسانوں کی ضرورت ہے۔ چنانچہ نجف ہائی سکول کے ان غصیلے اور سخت گیر اساتذہ کے ہاتھوں مار کھائی ہوئی جو کھیپ نکلے گی تو ملک ترقی کرے گا۔ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی۔ ان اساتذہ نے ہیڈماسٹر صاحب پر مختلف الزامات بھی لگادیئے اور ان کی محکمانہ انکوائری بھی لگوا دی۔ ہیڈماسٹر صاحب محکمانہ انکوائری سے کلیئر ہو گئے اور خاتون محتسب سے بھی کلیئر قرار پائے گئے۔ ایک ملاقات میں والدین نے بتایا کہ نجف ہائی سکول کے ہیڈماسٹر صاحب بچوں کے ہمدرد ثابت ہوئے۔ ان کے دور میں بچوں کا داخلہ بھی زیادہ ہوا اور ڈراپ آﺅٹ بھی کم رہا۔ سکول کا رزلٹ بھی شاندار آتا رہا۔ کسی ادارے کا سربراہ اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ وہ انتظامی معاملات کو دیکھے اور اگر تعلیمی ادارہ ہو تو اس کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بہترین تدریسی ماحول مہیا کرے۔ اگر ہیڈماسٹر بہترین تدریسی ماحول مہیا کرنے کے لئے بچوں پر تشدد کرنے والے اساتذہ کو اپنے ہاں کام کرنے کے لئے موزوں نہ سمجھے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب سے پہلے ہیڈماسٹر کی ٹرانسفر کر دی جائے اور بچوں کے دانت توڑنے اور ٹانگوں کو زخمی کرنے والوں کی حمایت کرتے ہوئے انہیں اسی سکول میں مزید کھل کھیلنے کا موقع فراہم کرے۔ یہ تو ایک سکول کی بات ہے۔ بعض سکولوں کے سربراہان یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت کسی سربراہ کی تعیناتی کے بعد اس پر اعتماد نہیں کرتی۔ ہر کام میں مداخلت کرتی ہے۔ بچوں کی تعلیم اور ان کی ذہنی نشوونما کے لئے حکومت کو فنڈ مہیا کرنے چاہئیں اور طلبا کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں زیادہ سے زیادہ انعامات دینے چاہئیں۔ گورنمنٹ سکولوں کے بچے طالب علم کم اور قیدی زیادہ لگتے ہیں۔ تعلیمی اداروں پر حکومت کو خوف طاری نہیں کرنا چاہئے۔ ہر مسئلے کا حل مکالمے، افہام و تفہیم اور پیار محبت سے نکالنا چاہئے۔