اس وقت ملک میں جاری ہنگامہ خیز سیاسی صورتحال کے سبب کیا عام اور کیا خاص تمام لوگ سیاسی جماعتوں کے رہنما¶ں کے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے کی حالت دیکھ رہے ہیں۔ اپوزیشن کا اصرار ہے کہ پانامہ لیکس پر وزیراعظم مستعفی ہوں۔ حالانکہ عدالت نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ فی الحال اس کیس میں تحقیقات کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے مطابق انہیں خدشہ ہے کہ اگر وزیراعظم برقرار رہتے ہیں تو وہ تحقیقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ جبکہ پانامہ لیکس میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ وزیراعظم نے کیس پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہو۔ مگر اپوزیشن کے وہم کا علاج کسی کے پاس نہیں۔حکومتی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم اپنے عہدے پر کام کرتے رہیں۔ ملکی تعمیر و ترقی کا سفر اسی طرح جاری رہے تو بہتر ہے۔ ان حالات میں ایک دوسرے پر تابرتوڑ حمل جاری ہیں۔ اس جنگ میں ایک طرف حکومتی محاذ ہے تو دوسری طرف اپوزیشن محاذ۔ دونوں ایک دوسرے کے مخالف سمت کی انتہا پر کھڑے ہیں۔ ان حالات نے پاکستانی میڈیا کو عجب دوراہے پر کھڑا کر دیا ہے۔ تمام تر کوشش کے باوجود احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا رہتا ہے۔میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آخر انسان ہیں۔ ان کے اپنے جذبات بھی ہیں‘ احساسات بھی وہ بھی دلی طور پر کسی نہ کسی جماعت اور شخصیت کو پسند کرتے ہیں یا ناپسند کرتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر ریٹنگ کے چکروں میں پڑنے کی وجہ سے ہر پروگرام میں اپوزیشن اور حکومت کے جذباتی ارکان کو مذاکرے کے نام پر بلا کر یکجا کر کے وہ طوفان برپا کیا جاتا ہے کہ اصل حقائق الزامات اور دشنام طرازی کی گرد میں دب کر رہ جاتے ہیں۔ ان حالات میں بعض اینکرپرسن اور میڈیا چینلز بھی جلتی پر تیل والا کام انجام دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام تک اصل بات نہیں پہنچتی اور وہ حقائق سے بے خبر رہتے ہیں۔ اخبارات ہوں یا الیکٹرانک میڈیا اور سب سے بڑھ کر سوشل میڈیا ان تینوں پر مشتمل ایک ایسی تکون وجود میں آتی ہے جو مثلث برمودا کی طرح ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اصل مسئلہ اور حقائق نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ انہی تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے گذشتہ دنوں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ پی آئی ڈی نے ایک خصوصی تربیتی نشست کا انعقاد لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کے خوبصورت ہال میں کیا جس میں عوام اور میڈیا ہا¶سز کے ساتھ مضبوط تعلقات کی ضرورت کے عنوان سے اس خوبصورت تقریب میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر پی آئی ڈی سمیت میڈیا کے سینئر صحافیوں‘ نمائندوں اور شعبہ تعلقات عامہ سے تعلق رکھنے والے سینئر حضرات نے شرکت کی۔ جس میں موجودہ دور میں ایک مضبوط اور بہتر تعلقات عامہ کی اہمیت اور میڈیا کو اسکے حوالے سے معلومات اور تربیت کی فراہمی پر زور دیا گیا۔ اس تقریب میں بھی ریڈیو‘ ٹی وی اخبارات اور سوشل میڈیا کی اہمیت اور ان کے ساتھ تعلقات میں حکومت کے کردار اور عوام پر ان کے اثرات کے حوالے سے کافی روشنی ڈالی گئی۔ اس تقریب کا لب لباب بھی یہی تھا کہ حکومت کے شعبہ تعلقات عامہ کو کس طرح متحرک اور مہارت کا حامل ہونا چاہئے کیونکہ اگر یہ تعلقات م¶ثر نہیں ہوں گے تو کوئی بھی حکومت اعلیٰ سے اعلیٰ کارکردگی کے باوجود اپنا امیج عوام کے سامنے بہتر نہیں بنا سکے گی۔ اسلئے حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ میڈیا اور عوام کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوں اور اس کا مثبت امیج عوام کے سامنے آئے۔ اس کام میں شعبہ تعلقات عامہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر یہ بہتر اور مضبوط نہ ہو تو اچھی بھلی حکومت کا امیج بھی خراب ہو سکتا ہے۔ اسلئے ہر حکومت اس طرف خاص توجہ دیتی ہے کہ وہ میڈیا کے ساتھ میڈیا یعنی ریڈیو‘ ٹی وی اور اخبارات کے ساتھ تعلقات مضبوط اور بہتر ہوں۔ اب یہ رابطہ جتنا مضبوط ہو گا اتنا ہی عوام اور حکومت کے درمیان رشتہ مضبوط ہو گا۔ اس لئے حکومت اور حکومتی اداروں کے شعبہ تعلقات عامہ میں م¶ثر متحرک اور جاندار ماہرین کی موجودگی ہمیشہ حکومت کو کسی بھی مشکل حالات سے نکالنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ بہرکیف پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی یہ ایک اچھی اور کامیاب کوشش تھی جس میں میڈیا اور حکومتی اداروں کے درمیان م¶ثر تعلقات قائم کرنے میں مدد ملے گی اور اس میں موجود خامیاں دور ہوں گی۔ موجودہ حالات میں جب ایک طرف ہماری بیرونی سرحدوں پر ہمارا دشمن ہمارے دوستوں کو بھی ہمارے خلاف اکسانے میں کامیاب نظر آتا ہے اور اندرون ملک ہمارے گمراہ طبقے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ مذہبی لسانی اور صوبائی تعصبات کو ایک بار پھر ہوا دی جا رہی ہے۔ میڈیا پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے عناصر پر بھی کڑی نگاہ رکھے جو بھیڑ کی کھال میں چھپے بھیڑیئے ہیں۔ میڈیا اگر صرف اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں مذہبی‘ سیاسی اور لسانی تعصب کو ہوا دیگا تو اس کا سارا اثر ملک پر پڑیگا۔ اسی طرح حکومت بھی اگر اپنی ساری توانائیاں سیاسی جنگ لڑنے میں صرف کرے گی تو اس سے عوام فلاح و بہبود اور ملکی ترقی کے کاموں پر برا اثر پڑے گا۔ اپوزیشن بھی اس بارے میں سنجیدہ رویہ اختیار کرے تو ملک میں جاری سیاسی جنگی کیفیت میں سدھار آ سکتا ہے۔ مائنس وزیراعظم فارمولے پر اڑے رہنا دراصل سیاسی خلفشار کو ہوا دینے کا دوسرا نام ہے۔ ویسے بھی 2018ءمیں الیکشن کا سال ہے۔ جو بہت قریب ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن دونوں کے پاس بہت کم وقت بچا ہے۔ اسلئے بجائے سیاسی خانہ جنگی کی صورتحال برقرار رکھی جائے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آنے والے الیکشن کی تیاری کریں۔ حکومت کے پاس بہت سے کام ہیں جو پورے ہونے ہیں۔ ان میں سرفہرست توانائی کا بحران ہے۔ اگر حکومت اس پر قابو پا لیتی ہے اور مہنگائی کا گراف نیچے لانے میں کامیاب ہوتی ہے تو پھر الیکشن 2018ءمیں اپوزیشن کے لئے اس کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اپوزیشن کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے عوام اور ملکی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ ورنہ صرف سیاسی جذباتی بیان بازی سے انتخابی معرکہ جیتنا بہت مشکل ہو گا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے جس طرح عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا ہے۔ اس سے ان کے اعتماد کی بحالی کا صاف پتہ چلتا ہے۔ وہ اپنے کارنامے اور حکومتی اصلاحاتی پروگرام لے کر عوام کے پاس جا رہے ہیں۔ سندھ‘ پنجاب‘ خیبر پی کے‘ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکے ہیں جس سے لگتا ہے اپوزیشن پریشان ہے۔ پیپلز پارٹی والے جوابی وار کے طور پر پنجاب پر حملہ آور ہوئے مگر فی الحال انہیں کوئی واضح کامیابی نہیں ملی۔ تحریک انصاف اگر خیبر پی کے میں 2018ءسے قبل کوئی اعلیٰ کارکردگی دکھا سکی تو اس کے پاس عوام کو دکھانے کےلئے ہو گا۔ پی پی کے پاس شاید یہ کچھ بھی نہیں سندھ میں انکی کارکردگی سے سب واقف ہیں۔
حکومت‘ عوام اور مو¿ثر تعلقات عامہ
May 11, 2017