تمام آسمانی صحیفوں میں درج ہے کہ قابیل نے حضرت ہابیل علیہ السلام کو بھاری پتھر مار کر قتل کیا ۔پھر کوّے کو بھیجا گیا کہ ساتھی مردہ کوّے کو مٹی میں دفن کر کے قابیل کو دفن کرنے کا سلیقہ سکھائے۔ ماہرینِ آثار ِ قدیمہ اسے پتھر کا زمانہ (Stone age)کہتے ہیں ۔حضرتِ انسان نے پہلے ہتھیار پتھر سے بنائے، نیزے اور تیر۔ پہلا پیشہ شکار ٹھہرا۔ پھر انسان نے کانسی ایجاد کی اور ہتھیار کانسی سے بننے لگے اسے (Brons age) کہتے ہیں ۔ہتھیار زیادہ مہلک اور دھار والے ہیں لیکن جنگ میں جلدی ٹوٹ جاتے ہیں ۔ پھر لوہا اور لوہے کی کانیں دریافت ہوئیں۔ (Iron age)میں انسان نے ہتھیار بھی لوہے سے بنانے شروع کیے لوہے کی تلواریں اور زرہیں۔ ساتھ زرعی آلات بنے زمین دور تک گہرا کھودنے والے ہل اور پیشہ زراعت ٹھہرا۔بیل اور گائے کی پوجا ہونے لگی کہ یہ زراعت میں بہت مددگار ثابت ہوتے تھے۔ گلہ بانی اور زراعت نے فروغ پایا۔ وسط ایشیا سے آ ریائی برصغیر میں چراگاہوں کی تلاش میں تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے ۔ ہڑپہ اور موہنجودڑو کے کول اور دراوڑی گھوڑوں پر سوار حملہ آوروں کا 2500BCمیں مقابلہ نہ کر سکے اور تباہ و برباد ہو گئے۔پہیہ ایجاد ہو گیا ۔ پہیے کی ایجاد ، دنیا میں ایک انقلابی ایجاد تھی۔ جنگ میں رتھ اور سواری کیلئے گھوڑے پہیے کھینچنے لگے ۔ مہا بھارت کورکشتر کے میدان میں کورو اور پانڈو کے درمیان لڑی گئی ۔ یہ آ ریائی سورما گھوڑوں اور رتھوں پر سوار ہیں۔ ارجن کے رتھ بان مقامی سانولے کالے بھگوان کرشن ہیں ۔ ©”ہے ا جن یدھ کر حق کیلئے “
سکندر یونانی تین سو سال قبل مسیح میں اپنی تیز رفتار کیولری کا چارج خود ہیڈ کرتا ہے پورس کے بیل اور بھاری بھرکم ہاتھی اس کے حملوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور خود بھی اپنے لشکر کو کچل دیتے ہیں ۔ موجودہ ایجادات کی تاریخ دو تین سو سال سے زیادہ نہیں ۔ سٹیم انجن کی ایجاد سے آمد و رفت میں انقلاب آیا۔ یورپی اقوام جہازوں پر بیٹھ نو آبادیات کی تلاش میں نکلیں ۔ مغلوں کی ایک خامی یہ تھی کہ انہوں نے نیوی نہیں بنائی تھی ورنہ جزائر انڈماں میں اپنے جہاز کھڑے کر کے یورپین جہازوں میں بھُس بھر دیتے۔ حالانکہ خاندان مغلیہ کے بانی بابر کو 1526میں ابراہیم لودھی پر فتح پانی پت کے میدان میں اس لیے ہوئی تھی کہ وہ اس کے مقابلے کیلئے ایک دقیانوسی سا توپ خانہ لے آیا تھا ۔ کریمیا کی جنگ میں ترکی کو روس اور یورپی اقوام نے اس لیے کچل دیا کہ وہ خندقوں میں بیٹھ کر لڑتے اور ترکی کے بہادر سورما خندقوں میں چھپنے کو بزدلی سمجھتے ، گھوڑوں پر مردانہ وار سوار ہو کر حملے کرتے اور روسیوں کی مشین گنوں کو نشانہ بنا کر لاشوں کے ڈھیر چھوڑ جاتے ۔ آج سے فقط ساٹھ سال پہلے کھاتے پیتے گھروں میں ایک ریڈیو یا ریڈیو گرام ہوتے جنہیں کنجوسی سے بجایا اور سنا جاتا۔ پھر ٹرانسسٹر آئے، ٹی وی آئے پھر گھر گھر موبائل فون آگیا ۔ گھروں کے اندر جو رشتہ داروں، خونی رشتوں ، دوستوں اور پنچائتوں کی رونقیںتھیں، رخصت ہو گئیں۔ Time and Spaceسکڑ گئے۔ ہر انسان موبائیل انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا پر دور دراز لوگوں سے ہمہ وقت رابطے میں ہے۔ دنیا سکڑ گئی لیکن انسانی رشتے محبتیں ، خلوص ، پیار، روایات رخصت ہو گئیں۔ مو¿دب بیٹھنے والے بیٹے ، بیٹیاں ، پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں موجود تو ہوتے ہیں، لیکن اپنے اپنے موبائیل پر کہیں اور In-Contact ہوتے ہیں ۔آنیوالے وقتوں میں Drone Delivery System،بغیر ڈرائیور کے کاریں، چاند پر نو آبادیات، مریخ کے سفر ،Space shuttle services، Fossil Fuel سے نجات ۔ گھروں میں روبوٹ ملازم اور جنگوں کیلئے انسانی فوجیوں کی بجائے Colones اور روبوٹس۔ایجادات کا یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟؟ ایجادات نے نوعِ انسان کیلئے ایک طرف تو بے تحاشہ سہولیات کا سامان کیا ہے، آسانیاں پیدا کیں ہیں تو دوسری طرف جہاں تیروں تلواروں کی Troyکی جنگ میں بیس سال میں فقط چند ہزار لوگ مارے گئے تھے وہاں Technological Advancementنے چالیس کی دہائی میں دو ایٹم بم جو ہیروشیما اور ناگا ساکی میں گرائے گئے، چند منٹوں میں دونوں شہروں میں تقریباً ایک ایک لاکھ انسان مارے گئے ۔ ایٹمی ہتھیار پہلے فقط سپر پاورز کے پاس ہوتے تھے۔اب پاکستان ، ہندوستان سمیت نارتھ کوریااور ایران کے پاس بھی ہیں ۔ نارتھ کوریا اپنے ICBMsکی نمائش کرتا رہتا ہے۔ ایک بار ان کے سربراہ نے کہا کہ اگر امریکہ نے ہم پر حملہ کیا تو ہم جاپان کو تباہ کر دیں گے۔ ایسی ہی بات ایک بار پابندیوں کے زمانے میں ایرانیوں نے کی تھی کہ ان پر حملے کی صورت میں وہ اسرائیل کو تباہ کر دیں گے۔ تمام سپر پاورز کو یہ خطرہ لاحق ہے کہ پاکستانی ایٹمی ہتھیار کسی دہشت گرد تنظیم کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔ چھوٹے چھوٹے بموں Dirty Bombs)) کا ان کے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ موجود ہے۔ ہندوستان تو ہمیں محدود ایٹمی تباہی کی دھمکی بھی دے چکا ہے ۔ اس وقت کوریا عراق شام یمن اور افغانستان ایسے Hot Points ہیں جہاں جنگ یا خانہ جنگی کی صورتحال ہے۔ امریکی بحری بیڑہ شام ، کوریا اورساﺅتھ چائنہ کی سمندری حدود کے نزدیک موجود ہے۔ خدانخواستہ ایٹمی جنگ اگر شروع ہو جاتی ہے تو وہ محدود نہیں ہو گی۔ Second Strike کی حکمت عملی سب نے تیار کر رکھی ہے ۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پھر سب ممالک کے پاس اپنے جوہری ہتھیار موجود ہیں جو کرہِ ارض کو درجنوں بار تباہ کر سکتے ہیں ۔ بھرپور جوہری جنگ کی صورت میں کرہِ ارض چٹخ جائےگا اور جیسے ہی ایک سولر سسٹم میں کششِ ثقل کا توازن بگڑا آسمانی صحائف کے مطابق قیامت واقع ہو جائیگی۔ پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی طرح اُڑیں گے۔ کرہ ِ ارض اپنے سے سینکڑوں گنا بڑے سورج میں ضم ہو جائےگا۔ ٹھوس سے مائع اور سورج ابھی بہت دور ہو گا کہ یہ Gaseous Form میں منتقل ہو جائےگا۔
”ووقنا رَبّنا عذاب النار“
اس خوبصورت Planet پر زندگی ، خوبصورتی جو کروڑوں سال میں وجود میں آئی وہ چند لمحوں میں ختم ہو جائےگی ۔ یہ سائنسی ترقی اور ایجادات حضرتِ انسان اور اس کرہِ ارض اور حیات کو آئن سٹائن کی انرجی Equation E=mc2 کے مطابق سورج کی انرجی میں واپس پہنچا دیں گے۔
(مضمون نگار جناح رفیع فاﺅنڈیشن کے چیئرمین ہیں)