مکرمی! سروں سے مصیبتیں اور بلاؤں کو ٹالنے کے لئے خدا جانے کالے بکرے ہی صدقے کے لئے کیوں ڈھونڈے اور منتخب کئے جاتے ہیں۔ یہ جس کسی کا بھی تصور تھا‘ اس نے اپنے سر سے بلائیں ٹالتے ٹالتے بے چارے کالے بکروں کے سروں پہ مصیبتیں کھڑی کر دی ہیں۔ حالانکہ جو بکرے کالے نہیں ہیں ان کا صدقہ دیا جانا شریعت میں حرام بھی نہیں ہے۔ اس فارمولے کی دیکھا دیکھی اعلیٰ حکومتی سطحوں پر بھی کسی ’’بڑے صاحب‘‘ کے گلے پڑی مصیبتوں سے گلو خلاصی کے لئے اس کے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی کالا قرار دے کر قربان کر دیا جاتا ہے۔ اس سے بھی اگر ’’صاحب‘‘ کی مصیبت ٹلتی نظر نہ آئے تو دو تین کو کالا قرار دے کر قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا جانا ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ اب تمام کالے بکروں اور کالے قرار دیئے گئے انسانوں کو چاہئے کہ جس کسی کا بھی یہ تصور تھا۔ اس کے لئے اجتماعی بددعا کا اہتمام کریں۔ معصوموں کی دعائیں اور بددعائیں اللہ بہت جلد قبول و منظور کرتا ہے۔ (محسن امین تارڑ ایڈووکیٹ گکھڑ منڈی)