اسلام آباد(سٹاف رپورٹر+آن لائن) پاکستان نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی کمیٹی نے جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کا نام دہشتگردوں کی فہرست میں ڈالنے کی تجویز مسترد کر کے دہشت گردی کے خلاف دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا ہے۔ عمر خالد خراسانی کے ہاتھ پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ مذکورہ کمیٹی نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو پیش نظر نہیں رکھا۔ دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کا معاملہ اب دوبارہ اٹھایا جائے گا جس کی تفصیلات بعد میں بتائی جائیں گی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میںکہا کہ بھارت ، اسلامی کانفرنس تنظیم کا رکن نہیں بن سکتا ۔ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کی وجہ سے بھارت کے خلاف لاتعداد بار قراردادیں بھارت کے خلاف منظور کی جاچکی ہیں تو ایسے ملک کو اس تنظیم میں کس طرح شامل کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کی رکنیت کا معاملہ تنظیم کے ایجنڈے پر ہی نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے میوزیم سے قائداعظم محمد علی جناح کی تصویر ہٹانا بھارت میں بڑھتی عدم برداشت کی عکاس ہے۔ یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ سرسید احمد خان کی جگہ نریندر مودی کی تصویر لگادی گئی ہے۔ بھارت کے اس طرز عمل کے برعکس پاکستان کے عجائب گھروں میں گاندھی کی تصاویر آویزاں ہیں۔ مسلہ کشمیر کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس دیرینہ تنازعہ کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان تمام عالمی فورمز پر یہ معاملہ اٹھا رہا ہے ۔ کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو دبایا نہیں جاسکتا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مصروف ہے۔ مسئلہ کشمیرکا حل کشمیریوں کے حق خودارادیت سے ہی ممکن ہے۔ 6مئی کو ڈھاکہ میں اسلامی ملکوں کے وزراء خارجہ کانفرنس میں متفقہ طور پر جموں و کشمیر کے تنازع سے متعلق پانچ قراردادیں منظور کی گئیں۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا عالمی قوانین کے مطابق مہاجرین اپنے قیام کے ملک میں سیاسی سرگرمیاں نہیں کر سکتے۔ پاکستان مقیم افغان مہاجرین بھی ان ہی قواعد کے پابند ہیں۔ افغانستان میں ووٹر رجسٹریشن سنٹر میں دہشت گردوں کے حملے کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی شدید الفاظ میں مذمت کا اعادہ کرتا ہے‘ بے گناہ لوگوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ دفتر خارجہ کے ایک سینیئر اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا عمر خالد خراسانی پر پابندی کی درخواست پر عمل درآمد کا معاملہ امریکی اعتراض کے بعد رکا۔