دسمبر 2019کے اوائل میں چین کے شہر ووہان میں جب کرو نا وائر س پھو ٹنے کی ابتدا ء ہو ئی تو امریکہ نے یہ سمجھا کہ یہ وبا ء صرف چین میں پیدا ہو ئی ہے اور چین تک ہی محدود رہے گی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ بیما ری اتنی تیزی سے پو ری دنیا میں پھیل جا ئے گی۔ مشہو ر اخبا ر ''دی انڈیپنڈنٹ''کے 25مارچ2020 کے شما رے کے مطا بق امریکہ نے اسے چائینہ وائر س کا نا م دیا اور جی۔7 کی وزراء کانفر نس میں اسے ''ووہا ن وائرس ''کے نام سے بلانے پر زور دیا۔ یہ بڑی حیران کن با ت تھی کہ اس وائرس کو چین تک محدو د سمجھا گیا حا لانکہ آ ج کل کے زما نے میں دنیا گلو بل ویلیج بن چکی ہے۔ پو ری دنیا میں پروازوں کی آ مد و رفت اتنی تیز ہے کہ وبا ء کا با قی دنیا تک پھیلنا قدر تی امر تھا۔ کسی بھی دو سرے ملک نے اس وبا ء سے لڑنے کے لیے چین کو کسی قسم کی مدد کی کو ئی پیشکش نہیں کی۔ صرف پا کستان ایک ایسا ملک تھا جو مشکل کی اس گھڑی میں چین کے ساتھ کھڑا ہو ا اور بھر پو ر امداد دینے کاعندیہ دیا۔ اس کے بر عکس امریکہ اس با ت پر زور دیتا رہا کہ چین کی کسی لیبا رٹری سے یہ وائر س یا تو جا ن بوجھ کر یا حادثاتی طو ر پر چھوڑا گیا ہے۔ صدر ٹر مپ اور مائیک پو مپیو نے با ر ہا اپنے بیا نا ت میں بتا یا کہ امریکہ اس با ت کی تحقیق کر رہا ہیکہ وائرس پھیلنے کی اصل حقیقت کیا ہے۔ چین نے بہر حا ل اس الزام کی سختی سے تردیدکی ہے۔ ووہا ن انسٹی ٹیو ٹ آ ف وائر ا لو جی نے کہا ہے کہ یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وائرس کسی لیبا رٹری میں تیار کیا گیا ہے یا حادثا تی طور پر پھیل گیا ہے۔ چین کی وزا رت خا رجہ نے بھی کہا ہے کہ'' ڈبلیو ایچ او'' نے اس بات کا کوئی ثبو ت نہیں دیا کہ وائر س کسی لیبا رٹری میں بنا ہے۔ ٹر مپ کے بیا نا ت کے بر عکس امریکی جوائنٹ چیف آ ف سٹا ف جنرل ما رک ملی نے بھی کہا ہے کہ وائرس قدر تی طور پر بھی پھیلا ہو سکتا ہے۔ ٹر مپ کے مخا لفین کہتے ہیں کہ امریکہ اپنی ناکا می کو چین کے سر تھو پنا چا ہتا ہے کیو نکہ اب امریکہ سے یہ وبا ء قا بو میں نہیں آ رہی۔ امریکہ کے اس واویلے میں اب جر منی, فرانس اور بر طا نیہ بھی شا مل ہو تے جارہے ہیں۔ ان مما لک نے چین سے مطا لبہ کیا ہے کہ ہمیں بتا یا جائے کہ ووہا ن میں اصل میں کیا ماجرہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ کچھ تو ایسا ہوا ہے جو چین چھپا رہا ہے۔ آ سٹریلیا نے بھی معاملے کی ایک بین الاقوا می انکوائری کامطالبہ کیا ہے۔ جا پان نے شرو ع میں چین کاسا تھ دیا تھا لیکن اب وہ بھی کہہ رہا ہے کہ سچ سا منے آ نا چا ہیئے۔ انڈیا کے کچھ ماہرین نے بھی بھا رتی حکو مت کو
مشورہ دیا ہے کہ وہ امریکہ, بر طا نیہ, جر منی, آ سٹریلیا وغیرہ کا سا تھ دیتے ہو ئے چین سے مطالبہ کرے کہ وہ سچ سا منے لیکر آئے۔ اس مشورے میں نہر و یو نیو رسٹی کے پرو فیسر را جا گو پالن پیش پیش ہیں اور کہتے ہیں کہ چین ہی کی وجہ سے اس وقت ہم سب کرو نا وائرس کو بھگت رہے ہیں۔ اس ساری کا رروائی سے یہ ظا ہر ہو تا ہے کہ امریکہ, بر طا نیہ, آ سٹریلیا, جر منی, جا پا ن اور بھا رت بغیر کسی ثبو ت کے چین پر کرو نا وائرس کے پھیلاؤ کا جھو ٹا الزام لگا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ مما لک اپنی نا کامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے چین کو قر بانی کا بکر ا بنا نا چاہتے ہیں۔ مزید برآں چین اس وقت کرو نا وائرس کے خلاف جنگ میں امریکہ, مغر بی مما لک اور دیگر کئی مما لک کی بھر پور امداد کر رہا ہے اس لیے چین کے دشمن مما لک اور مخالفین کو یہ فکر لاحق ہو گئی ہے کہ کر ونا وائرس کے چکر میں دنیا بھر میں چین کا امیج بہتر ہو جائے گا۔ ان کو یہ فکر بھی کھا رہی ہے کہ اس طرح تو چین ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لے لے گا۔ ایک تو کر ونا کے چکر میں چین کی معیشت ان مما لک سے بہت بہتر ہو جائے گی اور دو سرا بین الا قوا می سطح پر چین کی واہ واہ ہو جائے گی کہ اس نے نہ صرف کرو نا سے خود کو بچا یا بلکہ باقی دنیا کو بھی اس بلا سے نجا ت دلانے میں مدد دی۔ یہ صو رتحا ل چین کے مخالفین کو منظور نہیں لہذا وہ طر ح طرح کی اور نت نئی سا زشیں کر کے چین کو نیچا دکھا نا چاہتے ہیں۔ ان سا زشوں سے چین کو تو شاید کو ئی نقصا ن ہو یا نہ ہو لیکن کرو نا وائرس کے خلاف جنگ بری طرح متا ثر ہو نے کا خدشہ ہے۔ بہتر ہو گا کہ دنیا کے مما لک کرو نا اور اس جیسی دیگر بیما ریوں سے بچنے کے لیے ایک دو سرے کے او پر الزا م تراشیوں اور ایک دو سرے کی ٹا نگیں کھینچنے کی بجا ئے ایک دو سرے کی مدد کریں۔ جس طرح چین مشکل کی اس گھڑی میں اپنے مخالفین کی مدد کر رہا ہے اسی طرح بین الا اقوا می برادری آ پس کے اختلا فا ت کو بالا ئے طا ق رکھ کر مفاہمت کی فضا پیدا کرے اور مل جل کر اس آ فت کا مقا بلہ کرے۔ یا د رکھیں کہ کرو نا وائرس کی شکل میں یہ خدا کا ایک عذا ب ہے۔ اس پر سیا ست نہ کی جائے۔ اگر یہ عذاب بے قا بو ہو گیا تو پھر چین سمیت دنیا کے سارے مما لک ملکر بھی اس کے سا منے ڈھیر ہو جائیں گے۔ دنیا کے غریب مما لک تو پہلے ہی پِس رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس سیاست بازی میں امریکہ, مغربی مما لک اور چین سمیت سب کی بساط لپٹ جائے۔ جی۔7 اور جی۔ 20سمیت دنیا کے تمام تر قی یا فتہ مما لک کو چاہیئے کہ کر ونا وائرس کے خلاف جنگ میں سب متحد ہو جائیں۔ ایک دو سرے کی مدد کریں اور خا ص طور پر غریب مما لک کی مدد کریں تاکہ کرو نا وائرس بھی ختم ہو جائے اور اس کے آ نے والے مضر اثرات سے بھی دنیا کو بچا یاجا سکے۔