تاریخ کا طالب علم اور اِس سے گہری دلچسپی ہونے کے ناطے مجھے اُس وقت شدید افسوس ہوتاہے جب مسلم جرنیلوں اور ہیروز کے کرداروں پر اغیار کی سازشوں اور نام نہاد لبرلز کی جانب سے شب خون مارا جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو اوّل تو مسلم جرنیلوں اور اپنے ہیروز کے بارے میں بتایا ہی نہیں جاتا جنہو ںنے صحرائے عرب سے نکل کر ایشیا، چین، افریقہ ، اُندلس کو فتح کیا، قسطنطنیہ کو زیر کیا اور جب سقوطِ غرناطہ ہوگیا تو اُس وقت بھی کئی نامور مسلمان جرنیل اپنے سر پر کفن باندھ کر عیسائیوں کے سامنے سینہ سپر رہے اور مسلمانوں کی حتیٰ الامکان حفاظت کرتے رہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب جب قوموں نے اپنے ہیروز کو فراموش کیا وہ خود باعث عبرت بن گئیں۔ 10 رمضان المبارک کو ’’یوم باب الاسلام‘‘ منایا جاتا ہے جو نامور مسلم جرنیل محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح اور یہاں اسلام کے چراغ کو روشن کرنے کی یاد دلاتا ہے۔ گو کہ محمد بن قاسم سے پہلے خلفائے راشدینؓ کے ادوار میں کئی نامور صحابہ اور جرنیل اِس سرزمین پر آئے کچھ کو شکست اور کچھ کو فتح حاصل ہوئی۔ مگر تاریخی حقائق کے مطابق محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرنے کے بعد یہاں اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی۔ وہ کیا وجوہات تھی جن کی بناء پر حجاج بن یوسف الثقفی جو کہ اُمویوں کی جانب سے عراق اور حجاج کا گورنر تھا۔ حجاج جہاں ایک ظالم و جابر گورنر تھا وہیں اُس کے ہاتھوں کئی اچھے کام بھی سرزد ہوئے۔ میرا آج کا موضوع حجاج بن یوسف نہیں بلکہ اُس کا بھتیجا اور تاریخ اسلام کا نامور جرنیل محمد بن قاسم الثقفی ہے۔ 4 مئی کی رات 12 بجتے ہی ایک صارف نے ٹوئیٹر پر ہیش ٹیگ’’راجہ داہر نیشنل ہیرو‘‘ بنایا اور موصوف کی ہندو راجہ داہر سے اِس عقیدت و محبت کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی اور کوئی بحث ہمارے ہاں تمیز سے ہوجائے یہ ناممکن ہے۔ محمد بن قاسم فاتح سندھ تھے۔ اس لئے وہ سیکولر طبقے کے نزدیک اسلامی تاریخ کے قابل نفرت کرداروں میں سے ایک ہیں۔ یہ گروہ محمد بن قاسم پر طرح طرح کے الزامات لگاتا ہے۔ ان کی جانب سے یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ لوٹ مار کیلئے کیا تھا۔ قاضی اسماعیل کی کتاب ’’چچ نامہ‘‘ (جسے سندھی ادبی بورڈ نے شائع کیا تھا) کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ:’’سراندیپ (موجودہ سری لنکا) کے حاکم نے جزیرہ یا قوت سے حجاج بن یوسف کے لیے کچھ قیمتی تحائف روانہ کیئے اس قافلے میں کچھ مسلمان خواتین بیت اللہ کی زیارت کرنے کے شوق میں کشتیوں میں سوار ہوگئیں۔ مخالف سمت کی ہوائیں کشتیوں کو دیبل کے کناروں کی طرف لے آئیں۔جہاں نکامرہ کے ٹولے نے آٹھوں جہازوں پر دھاوا بول دیا املاک کو لوٹا اور مسلمان عورتوں کو گرفتار کیا۔ اہل سراندیپ نے انہیں بہت سمجھایا کہ یہ تحائف بادشاہ کے لیے جا رہے ہیں لہٰذا آپ یہ مال فوراً واپس کریں لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور فاخرانہ انداز میں کہا کہ آج اگر کوئی تمہارا داد رس ہے تو اسے پکارو اسی اثناء میں ایک عورت کی زبان سے مظلومانہ آہ نکلی۔ان مغویوں میں سے ایک آدمی فرار ہو کر حجاج کے پاس پہنچااور حجاج کو کہا کہ مسلمان عورتیں راجا داہر کے پاس قید ہیں جو تجھے مدد کے لیے پکار رہی ہیں۔‘‘ (چچ نامہ۔ صفحہ نمبر 121)حجاج نے راجہ داہر حاکمِ سندھ کو خط لکھا اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن راجہ داہر نے جواب دیا کہ ’’عورتوں اور بچوں کو قید کرنا اور مال و اسباب کو لوٹنا بحری قزاقوں کا فعل ہے جو میرے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ لہٰذا میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا۔اگر الزامات لگانے والے غور کریں تو شاید ذہن کھل جائے۔اگر حجاج مال و اسباب چاہتا تھا تو اس نے خط کیوں لکھا؟ حملہ کیوں نہیں کیا؟ واضح کردوں کہ قاضی اسماعیل صاحب کی کتاب کواور خود ان کو، سندھ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ راجہ داہر کے اس جواب کہ بعد حجاج نے ایک اور خط لکھا جس کا ذکر بھی قاضی صاحب کی کتاب میں موجود ہے۔اس خط میں حجاج نے واضح کیا کہ چونکہ تم مسلمان قیدیوں کو واپس کرنے پر آمادہ نہیں لہٰذ کارروائی ہماری مجبوری و فرض ہے۔ لہٰذا حجاج نے محمد بن قاسم کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا جس نے سندھ فتح کیا اور پھر سندھ باب الاسلام بنا۔ محمد بن قاسم کی فوج اور انتظامی کامیابی پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ محمد بن قاسم ایک شیر دل انسان تھا۔ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ایک قابل منتظم، دور اندیش حکمران اور سیاستدان۔ اس نے فتح کے بعد سندھ کے موجودہ نظام کو خراب نہیں کیا۔ اس نے اندرونی معاملات کا نظام وہاں کے باشندوں پر چھوڑ دیا۔ برہمنوں نے ملکی انتظامات و انصرام میں داخلہ حاصل کرکے بڑے خوش گوار ماحول پیداکیئے۔محمد بن قاسم کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر لوگوں نے جگہ جگہ اس کے چرچے کرنے شروع کردیئے اور اس سے متاثر ہوکر سند ھ کے بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوگئے۔جن میں راجہ داہر کا بیٹا بھی شامل تھا۔ راجہ داہر کی اپنی بہن سے شادی کے بارے میں جو واقعہ ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ : ’’راجہ چچ کی موت کے بعد اِس کا بھائی چندر راجہ بنا۔چند سالوں میں وہ فوت ہوگیا تو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنااور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر۔ چچ کی ایک بیٹی تھی، دھرسیہ نے اِس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اُسے داہر کے پاس بھیج دیاکہ اُس کی شادی کردی جائے۔ داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا۔ جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے۔ یہ جس کے پاس رہے گی اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی۔ داہر نے اِس ڈر سے کہ کہیں اِس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے وزیر باتدبیر سے مشورہ کیا، وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں، بات اچھی ہو یا بری لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔لوگوں نے تو راج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرادیا،بہن سے شادی تو معمولی بات ہے۔گو کہ وزیر کے مشورے پر عمل کرکے داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، مگر دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (حیدرآباد) پہنچا اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا۔اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی۔قزاقی ،لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والے داہر کے سایہ عافیت میں پناہ لیتے تھے۔ (تاریخ سندھ، صفحہ 45-46۔ مصنف: اعجاز الحق قدوسی)معروف عرب مورخ اور اسلام کے ابتدائی ادوار پر مشہور کتاب ’’فتوح البلدان‘‘ کے مصنف علامہ بلاذری لکھتے ہیں: ’’محمد بن قاسم کی شخصیت انتہائی پروقار تھی۔ ان کا اخلاق دوسروں کو جلد گرویدہ بنالیتا تھا۔ اِن کی زباں شیریں تھی اور وہ ہنس مکھ تھے۔ وہ ایک باہمت، بامروت، رحمدل اور ملنسار انسان تھے۔ وہ ہر شخص سے محبت سے پیش آتے اور ان کے ماتحت ان کی حددرجہ عزت و احترام کرتے تھے۔ عام زندگی میں لوگوں کے غم بانٹتے تھے۔ انہوں نے ہر موڑ پر عقل و فراست کو پوری طرح استعمال کیا اور ان کا ہر قدم کامیابی کی راہیں تلاش کرتا تھا۔ ان کی بلند خیالی اور مستحکم ارادے ان کی کامیابی کی دلیل تھے۔‘‘راجہ داہر اور محمد بن قاسم کی شخصیت کی بات ہے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور جہاں تک حامیوں اور مخالفوں کی بات اور اُن کی دلیلوں کی تو اس میں حسد اور بغض کا عنصر زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔مملکت اُمویہ نے اہل بیت اطہار کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ اسلام کا سیاہ ترین باب ہے۔ مگر اُموی خلفا کی اِن مذموم حرکات کی بناء پر ہم مسلم جرنیلوں کو تو اِس فہرست میں کھڑا نہیں کرسکتے۔ محمد بن قاسم اگر اُموی دور کے جرنیل ہیں تو پھر آپ کو طارق بن زیاد، قتیبہ بن مسلم، موسیٰ بن نصیر، طریف بن مالک اور انہوں نے جن علاقوں کو فتح کیا اُن کو بھی کٹہرے میں لانا پڑے گا۔ اور پھر مغرب کے سینے میں مملکت اُندلس قائم کرنے والا بھی اُموی شہزادہ ہی تھا۔ یہ سب اسلامی تاریخ کے سنہرے ابواب ہیں۔ ان کو نظرانداز کسی طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہماری تاریخ کے روشن چہرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہوتا ہے لیکن یہ بات انتہائی عجیب ہے کہ ایک ہی قوم مسلمان ایک ہی قوم پاکستانیوں کا ہیرو محمد بن قاسم، مسلمانوں کے ایک گروہ کا دشمن کیسے ہوسکتا ہے؟ محمد بن قاسم تمام مسلمانوں کے ہیرو ہیں کہ جن کا پیغام ہی حسن سلوک تھا اور جن کی تاریخ ہی مسلمان بہنوں کی حفاظت سے بھری ہے۔ افسوس کہ کچھ نام نہاد دانشوروں نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی خاطر تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا اور ہم بھی بغیر تحقیق کئے ’’لبیک‘‘ کہہ کر اُن کے کاروان میں شامل ہوجاتے ہیں۔