ٹیپو سلطان ہندوستان کا پہلا دور اندیش بادشاہ تھا جو ہندوستان کو بیرونی حملوں سے محفوظ رکھنے کیلئے سمندری راستوں پر رکاوٹ کی منصوبہ بندی کا آغاز کیا ۔نہ صرف بحری بیڑے کا خیال پیش کیا بلکہ خود بحری جہازوں کے نقشے بنائے اور ایک مضبوط بحری بیڑے کی بنیاد رکھی اس دور میں اپنی فوج کے لئے پنشن کا قانون بنایا ۔ جاگیرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کیا ۔ عام کسانوں کو زمین کا مالک بنایا زمین اس کی جو کاشت کرے اس مشہور قول کو عملی شکل میں نافذ کیا ۔ ہندوستان کو پہلی مرتبہ بینکنگ نظام سے روشناس کرایا ۔ کوآپریٹو سوسائٹیوں کے ذریعے اصلاحات اور تعمیرات کی گئیں ۔ بے شمار دینی علمی اورفنی اداروں کے علاوہ ایک یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی اس کا نعرہ تھا ہندوستان ہندوستانیوں کا ہے وہ چاہتا تو غیرت کا راستہ چھوڑ کر انگریزوں سے دوستی کرتا ان سے مراعات لیتااپنی سلطنت میں توسیع اور حکمرانی مضبوط کرتا مگر وہ جانتا تھا کہ انگریز ہندوستان میں تجارت نہیں حکومت کرنے آیا ہے وہ کسی کا دوست نہیں ہو سکتا لہذا اس نے احسان مندی کی سلطانی کو غیرت مندی کی موت پر قربان کر دیا لندن کے ایک عجائب گھر میں ٹیپو کا تیار کردہ ایک کارٹون یادگار کے طور پر محفوظ رکھا ہے جس میں ایک شیر نے انگریز سپاہی کو دبوچ رکھا ہے ۔ بٹن دبانے پر وہ سپاہی چیخ و پکار کرتا ہے انگریز ی میںشیر سے پناہ مانگتا ہے اور جان بخشی کی التجا کرتا سنائی دیتا ہے ۔ انگریز مائیں ٹیپو کا نام لے کر اپنے بچوں کو سلانے کیلئے ڈراتی تھیں ۔
انگریز نے ٹیپو کے خلاف وہ حربہ استعمال کیا جس کے ذریعے فرانس کے بادشاہ نپولین کو شکست دی گئی ۔ سلطان ٹیپو کے بہت سے امراء وزراء کو لالچ دے کر ساتھ ملایا ایک انگریز کو صوفی بزرگ کے بہروپ میں میسور بھیجا جس نے عوام کو ٹیپو کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرکے بڑھکانا شرو ع کیا ۔ بڑے ریاستی اہل کاروں کو بڑی رشوتیں دے کر غداری پر آمادہ کیا گیا انہی میں میر صادق ، میر غلام علی ، میر قاسم اور دیوان پر نیا قابل ذکر ہیں ۔ سازشوں کا جال مکمل ہونے کے بعد انگریز نے بڑی فوج کشی کی ۔ غداروں کی مدد کی بدولت انگریز کامیاب ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ میسور کا دارلحکومت سرنگا پٹم بھی محاصرے میں آگیا ۔ دیوان پرنیا اور میر صادق عین میدان جنگ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ انگریزوں سے جاملے لہذا بطل حریت سلطان ٹیپو رحمتہ اللہ علیہ 4مئی 1799ئکو بہادری کی نئی داستاں رقم کرتے ہوئے مقام شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہو کر اپنے قول کوہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کر دیا " گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے " اس کے ساتھ ہی مملکت خداداد میسور کا تو خاتمہ ہوگیا مگر آنے والی نسلوں کے لئے جدوجہد کے کہکشاں کی طرح درخشاں باب روشن کرگیا جس سے اسلامی احیاء کی کئی تحریکوں نے جنم لیا چراغ سے چراغ جلتے چلے گئے اور 14اگست 1947ئ کو لیلتہ القدر کی مقدس ساعتوں میں میلاچراغاں ضوفشاں ہوا ایک بار پھر مملکت خداداد پاکستان کے نام سے مینارنور کی مانند دنیا کے نقشے پر ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے کیلئے ظہور پزیر ہوئی جسے یقینا حضرت شہید سلطان ٹیپو کی تمنائوں اور خوابو ں کی تکمیل کی جانب رواں دواں ہونا تھامگر کون جانتا تھا کہ ٹیپوکی آرزوئوں کی تکمیل کرنے والے جانثاروں کا پیچھادیوان پرنیا اور میر صادق کی اولاد مستقل اور مسلسل کر رہی تھی جس کے باعث مملکت خداداد پاکستان کی اشرافیہ میں وطن پرستوں سے زیادہ ملت فروش اور دین گریز قوتیں سرایت کرچکی ہیںجس کے کرہ ارض پر سب سے بڑی اسلامی ریاست اپنی اصل منزل وہ منزل جس کے لیے حضرت ٹیپوسلطان شہید حضرت مجدد الف ثانی ، شاہ ولی اللہ ، شاہ اسمعیل شہید قائد و اقبال کے علاوہ لاکھوں شہیدوںجنہوں نے برصغیر میں احیائے اسلام کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے وہ منزل دھندلاگئی اور آج ہم پسپائی اور رسوائی کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ہماری نسل نو اپنے عظیم المرتبت اسلاف کی حیات و خدمات سے ناآشنا ہیں۔ ہمارے نصاب میں مجدد الف ثانی ؒاور اقبال کا فلسفہ حیات درج ہے نہ تیتو میر اور ٹیپو سلطان کی شجاعت ،صداقت اور شہادت کی انمول داستانیں بیان کی گئیں۔اگر واقعی پاکستان کوایک جدید فلاحی اسلامی جمہوری ریاست کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں تو ایک جانب نصاب کو ازسر نو اپنے درخشاں ماضی اور ایثارو اخلاص کے پیکر بزرگوں کے بلند کردار اور اعلیٰ اوصاف سے ترتیب دینا ہوگااور دوسری جانب اپنے مشاہیر کے ایام کو قومی سطح پر منانے کا اہتمام کرنا بھی لازم ہے تاکہ ہمت و جرات کی داستانوں سے ولولہ تازہ پیدا ہو سکے ۔
(ختم شد)