تجزیہ:محمد اکرم چودھری
طالبان نے افغانستان میں امارت اسلامیہ کی قیادت میں مجاہدین کی طرف سے عید الفطر کے پر مسرت موقع پر تین روز کے لیے جنگ بندی کے حوالے سے ہدایات جاری کر کے افغانستان میں انسانیت کے دشمنوں کو امن کا پیغام دیا ہے۔ طالبان کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر وقت جنگ نہیں چاہتے لیکن اپنے حق سے بھی دستبرداری انہیں قبول نہیں ہے۔ افغانستان میں طالبان پائیدار امن قائم کرنے کے لیے جدوجہد تو جاری رکھیں گے لیکن وہ غیر ضروری طور پر جنگ جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہیں۔ افغان طالبان اسی بنیاد پر ایک عرصے سے ہر سطح پر بات چیت اور مذاکرات کر رہے ہیں۔ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے پاکستان کا کردار نہایت شاندار ہے۔ پاکستان نے ناصرف اس امن عمل کے لیے ثالث کا کردار ادا کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں ترقیاتی منصوبوں میں بھی بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا ہے۔ حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کابل میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے۔ اس دوران برطانوی چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل نکولس پیٹرک بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں بھی باہمی سلامتی و دفاع میں تعاون اور بارڈر مینجمنٹ کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پر امن افغانستان کا مطلب پر امن خطہ اور بالخصوص پر امن پاکستان ہے۔ پاکستان ہمیشہ افغانوں کی قیادت میں افغان مفاہمتی عمل کی حمایت کرتا رہے گا۔ افواج پاکستان کے سربراہ کا یہ بیان ان تمام قوتوں کے لیے واضح پیغام ہے جو افغانستان میں من پسند یا امپورٹڈ لوگوں کے ذریعے معاملات کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی اس افغان دوست پالیسی کو مقامی سطح پر بھی پذیرائی ملتی ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے بھی افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان کے مخلصانہ اور مثبت کردار کو سراہا ہے۔ پاکستان اسی عزم اور جذبے کے ساتھ افغان امن عمل کو آگے بڑھا رہا ہے کہ افغانستان میں معاملات کو چلانا افغانوں کا حق ہے اور طالبان کی موجودگی، ان کی طاقت، اثر و رسوخ اور مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا فریق یہ دعویٰ نہیں کر سکتا نہ طالبان کے بغیر کسی قسم کے امن مذاکرات یا کوششوں کی کوئی اہمیت ہے۔ عیدالفطر کے پر مسرت موقع پر طالبان کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان امن کا پیغام ہے کیونکہ مجاہدین عیدالفطر کے موقع پر اپنے ہم وطنوں کو ایک پرامن اور محفوظ ماحول مہیا کرنا چاہتے ہیں تاکہ اس خوشی کے موقع سے وہ حقیقی طور پر لطف اندوز ہو سکیں۔ امارت اسلامیہ کے تمام مجاہدین کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ملک بھر میں دشمنوں کے خلاف تمام جارحانہ کارروائیاں عید کے تیسرے دن تک روک دیں۔ امن کے اس پیغام کے ساتھ ساتھ افغان طالبان نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ جنگ بندی کے واضح اعلان کے باوجود بھی اگر ان دنوں میں دشمن کوئی حملہ کرتا ہے تو اپنی اور اپنے علاقے کا پوری قوت سے دفاع کیا جائے۔ عید الفطر کے دنوں میں مجاہدین کو دشمن کے علاقوں کا دورہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ افغان طالبان نے مختلف سطح کے مذاکرات میں یہ واضح کیا ہے کہ وہ افغانوں کے دیرینہ مسائل حل کرنے، جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو، اپنے لوگوں کے مسائل ختم کرنے اور ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے عزت اور وقار کے ساتھ سب سے بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ وہ اسلامی اقدار اور اپنے وقار اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔ وہ دنیا سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں انہیں اپنی روایات کے مطابق آگے بڑھنے کا موقع ملنا چاہیے۔ افغان طالبان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں سے بھی غیر جانبدرانہ رویے کی توقع رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی قسم کی امپورٹڈ قیادت اور ڈکٹیشن کو قبول کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ افغان امن عمل میں امریکہ سمیت تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاملات کی تاریخ، حساسیت، لگاؤ اور شدت کو سمجھ کر آگے بڑھیں۔ افغانوں نے دہائیوں تک جنگ لڑی ہے وہ کسی بھی صورت باہر سے آنے والوں کو حکمرانی کا حق نہیں دے سکتے۔ وہ خود اپنے ملک کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ وہ صرف اللہ کے سامنے سر جھکانا جانتے ہیں اور یہ پیغام انہوں نے دنیا کی تمام طاقتوں کو واضح انداز میں پہنچایا ہے۔