رحمتوں برکتوں کے مہینے میں بیت المقدس میں بارگاہِ الہٰی میں کھڑے فلسطینیوں پر یہود کی چلتی گولیاں تلاوتِ کلامِ پاک کے دوران بے گناہ بہتا ہواخونِ مسلم اور اللہ اکبر اللہ اکبر کی بلند آوازوں میں برپا کربلا پورے عالم اسلام نے دیکھی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اب تو مسجد اقصیٰ کے دروازے بھی بند کردئیے کہ کوئی نکل بھی نہ سکے ۔مگر ایک اور سوال ہے کہ کیا غیرت مسلم زندہ ہے؟ اگر زندہ ہوتی تو آج ہٹلر سے بچنے والی یہ بھیڑیوں کی نسل اس طرح خون کی ہولی نہ کھیلتی۔ ہٹلر نے ٹھیک کہا تھا کہ کچھ یہودیوں کو زندہ اس لئے چھوڑ رہا ہوں تاکہ آنے والی نسلیں یہ کہہ سکیں کہ میں نے جو کیا وہ ٹھیک کیا۔ آج لمحہء فکریہ ہے UNکی انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں ؟ انسانیت کا درس دینے والے انسانیت کے قاتلوں کے اس ظلم پر خاموش کیوں ہیں ۔ اب بیان دینے سے کچھ نہیں ہوگا اب پریکٹیکل طور پر کچھ کرنا پڑے گا۔ دنیا کو سمجھ نہیں آرہی کہ آج کرونا کی شکل میں جو عذاب الہٰی نازل ہوا ہے اس کی وجہ یہی مظالم ہیں جو کشمیر ، فلسطین، شام، یمن اور برما وغیرہ میں ناحق خون مسلم بہا کر کیے جا رہے ہیں۔ نہتے فلسطینیوں کی درد میں ڈوبی آوازیں کسی کے دل پر اثر نہیں کر رہیں اگر امت مسلمہ اب بھی اکٹھی نہ ہوئی تو سُن لیں کہ یہ ٹریلر ہے ۔ سب اپنی اپنی خیر منانا۔ جب فلسطینی بچے ، بچیوں ، نو جوانوں ، بزرگوں کا خون گرتا ہوگا تو عالم اسلام کی حرکتیں دیکھ کر وہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ :
اب دل میں حوصلہ نہ سکت بازوئوں میں ہے
اب کے مقابلے پر میرے یار آگئے ہیں
لیلۃالقدر میں جو کچھ کائنات میں ہوا زمین بھی کانپ گئی ہوگی ۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے ۔ الجہادالجہاد الجہاد۔ جس دن مسلمانوں نے اپنی تلواریں میانوں سے باہر نکال لیں پھر دیکھنا طیب اردگان نے کہا کہ انہیں درختوں کے پیچھے چھپنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ مجھے آج جناب اقبال یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ :
تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہء ارض کی تقدیر بدل جائے
مسلمانو! یاد رکھو اس دنیا میں تمہیں جانچا جا رہا ہے لیکن تمہیں پیدا دوسری جگہ کیلئے کیا گیا ہے (حضرت علی)…قبلہ اوّل کب تک خون مسلم سے سرخ ہوتا رہے گا؟ یاد رکھیں جو زبانی جمع خرچ تم کرتے ہو اس کا کوئی نتیجہ اگر آج تک نہیں نکلا تو اسکے بعد بھی نہیں نکلے گا۔
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
مغرب کی طرف کب تک دیکھتے رہو گے :
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
مغرب کی مثال تو ان دو حکیموں کی ہے جو قبرستان سے گزررہے تھے ایک دوسرے کو دیکھ کر کہنے لگے:
جو قبروں کو دیکھا تو بولے معالج
یہ سب گھر ہمارے بسائے ہوئے ہیں
کبھی غور کریں آج کشمیر سے لیکر فلسطین تک کے زخم بس یہ انہی کے لگائے ہوئے ہیں ۔ انسانیت کے ان نام نہاد علمبرداروں نے ہی تو زخم لگائے ہیں کہ آج برصغیر کی مٹی کھودیں تو اہل نظر کو آج بھی خون رِستا نظرآتا ہے ۔ آج پاکستان میں جو آپس کی نفرت اور منافقت نظر آرہی ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی کہ:
یہ کس شہرِ منافق میں تم آگئے ساغر
اک دوجے کی ہر شخص خطا ڈھونڈ رہا ہے
میں جب ملکی حالات اور ہر روز بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھتا ہوں تو جناب اقبال یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ :
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے
محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے
جمہور سے سلطانی جمہو ر ڈرے ہے
تھامے ہوئے دامن ہے یہاں پر جو خودی کا
مر مر کے جیئے ہے کبھی جی جی کے مرے ہے
مغر ب میں اگر کسی کمزور پر زیادتی ہو جائے تو اسے جسٹس سسٹم پر اتنا اعتماد ہوتا ہے کہ کہتا ہے "I will see you in the court" اور یہاں غریب کہتا ہے کہ تمہیں قیامت والے دن پوچھوں گا۔اب خوف خدا کرو اللہ کی لاٹھی چل گئی ہے ۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کشمیری امت مسلمہ کو پکارتے رہے کسی نے نہ سنی آج اللہ نے سن لی ہے۔ ہندوستان کا حال تو دیکھو عذاب الٰہی سے مرتے ہندو اپنی زندگی کیلئے اپنے دیوتائوں کو توڑ رہے ہیں۔ اور اللہ کی وحدانیت کا پرچار کر رہے ہیں ۔ اللہ کے ہاں انصاف ہوتا ہے اور سنو شیخ سعدی کیاکہہ رہے ہیں۔ مخلوقِ خدا پریشان ہے۔ سنوسوڈان سے شیخ عبدالباقی الکاشفی خطبہء جمعہ کا مختصر ترین خطبہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ : "بھوکے مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ پہنچانا 1000مساجد تعمیر کرنے سے بہتر ہے ۔ صفیں درست فرما لیں "۔
دل بہت دکھی ہے میں نے بیت المقدس میں بہتا ہوا خون دیکھا ہے۔ جان بچانے کیلئے بھاگتے چھوٹے چھوٹے مدنی بچوں کو چیختے دیکھا ہے۔ یہ یہودی ظالم درندے ہیں ۔وزیر اعظم صاحب کو کامیاب دورے کی مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ کا مدینہ منورہ میں ننگے پائوں جانا آپ کی آقا کریمؐ سے محبت کا آئینہ ہے۔ آپکا عشق سلامت رہے ۔ امید کی ایک کرن پیدا ہو گئی ہے ۔ عالم اسلام کو شاید سمجھ آگئی ہے ۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لیکر تا بخاکِ کاشغر
دیکھو دیکھو اب بھی فلسطینی عالم اسلام کی طرف دیکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ :
غم حیات کا جھگڑا مٹا رہا ہے کوئی
چلے آئو کہ دنیا سے جا رہا ہے کوئی
ازل سے کہہ دو رُک جا دو گھڑی
سنا ہے آنے کا وعدہ نبھا رہا ہے کوئی