کتاب۔۔۔ بہترین تحفہ

کتاب کے تحفہ پر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے چند ہفتہ قبل سابق چیف جسٹس آف پاکستان ارشاد حسن خان کی سوانح حیات پر لکھی گئی کتاب’’ ارشاد نامہ‘‘ کا نسخہ موصول ہوا۔اہم چیز یہ کہ کتاب کے سرورق کے رنگ منتخب کرتے وقت بھی حب الوطنی کو خاطر میں رکھا گیا ہے اور پاکستانی پرچم کے سبز اور سفید رنگ کا انتخاب کیا گیا ہے ۔سوانح حیات یا بائیوگرافی لکھنے والے لوگ ہرگزعام قرار نہیں دیے جا سکتے کیونکہ یہ وہ مخصوص لوگ ہوتے ہے جو خود اپنے آپ کو عوام کی عدالت میں لا کھڑا کرتے ہیں  اورایک بائیو گرافر پر اسکے ماضی کے کارگردگی کے حوالے سے لاکھ نقطہ چینی کیوںنہ ہو لیکن یہ ایک اعلیٰ ظرفی ہے کہ وہ فرائض سے فراغت کے بعد کسی چیز یا مجبوری سے ہٹ کر اپنے آپ کو عوامی عدالت میں کھڑا کرتا ہے وہ معاشرہ جہاں ہر بندے کو اپنے میں کوئی نقص نظر نہیں آتا وہاں اپنی شخصیت کو کھول کر رکھ دینا کسی جرأت سے کم نہیں جسٹس صاحب نے خود احتسابی اور تزکیہ کارکردگی کی خاطر اپنی زیست روز گار کتاب لکھ کر بڑے احسن طریقے سے مقدمہ لڑا ہے ایک سابقہ چیف جسٹس آ ف پاکستان کا اپنی سوانح حیات لکھنا اس لئے بھی اہم ہے کہ وہ اپنی زندگی انصاف کے فرائض اور منصفی کی ادائیگی میں صرف کر دیتا ہے اور پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد اپنی ذاتی زندگی کو بھی عدل کے پلڑے میں تول کر سرخر وح ہونے کی کوشش کرتا ہے اور ماضی کے اپنے فیصلوں پر پچھتانے کے بجائے پراعتماد کھڑا رہتے ہوئے اپنے افعال و کردار پر پہرہ دیتا نظر آتا ہے۔
ارشاد حسن خان کی کتاب پر بات کرنے کے بہت سے پہلو ہیں لیکن اہم ترین نقطہ جس پر کتاب موضوع گفتگو رکھتی ہے وہ ہے ظفر علی شاہ کیس جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنناپڑا جس کے تحت انہوںنے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو آئینی لحاظ سے تین سال کے لئے ملک کا چیف ایگزیکٹو حق دیا۔جسٹس ارشاد حسن بیان کرتے ہیںیہ فیصلہ جسے نا پسندیدگی اور اختلافی فیصلہ کے طور پر لیا گیامیرے نزدیک مستحسن فیصلہ تھا اور یہ فیصلہ سابق جنرل ضیا کے طریقہ حصول اقتدار اور طرز حکومت کے تقابلی تناظر میں کیا گیا اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو یقینی طور پر مشرف کی آمریت کا دور تین سال سے مزید کئی سال تک بھی جا سکتا تھااور مشرف کو محدود کرنے کے لئے یہ فیصلہ بالکل درست تھا کتاب کے متعلق مصنف کے کچھ قانون دان حریفوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کتاب پی سی او کے تحت بننے والے ججوں اور مشرف کے حق میں فیصلوں سے لگنے والے الزامات کو رفع کرنے کے لئے ایک سعی ہے۔ایس ایم ظفرنے ’’اس کتاب کو ملک کی سیاسی و قانونی تاریخ کے لٹریچر میں انتہائی قیمتی اضافہ قرار دیا ہے‘‘ نامور سینئر صحافی سعید آسی صاحب نے کہا کہ’’ ارشاد نامہ پڑھ کر میری رائے بدل گئی کہ نظریہ ضرورت کو بریک لگانے اور ملک میں جمہوریت بچانے کے لئے ظفر علی شاہ کیس کافیصلہ درست تھا‘‘ارشاد نامہ کے قا نونی و پیشہ وارانہ پہلو سے ہٹ کر ادبی تناظر میں بات کی جائے تو مجھے اس میں ارشاد حسن خان صاحب کا انداز تکلم و بیان بہت پسند آیاا وریہ بھی کہ ماضی کے سوانح نگاری کرنے والے قانون دان ججز کی نسبت قومی زبان اردو کا انتخاب کرنا ہے یقینا اس لئے کہ عام قاری تک کتاب کی دسترس زیادہ سے زیادہ ہو سکے اور انگریزی کی مشکل اصطلاحات والی مشکلات سے بچا جا سکے وگرنہ یہ کتاب بھی صرف ایلیٹ کلاس تک ہی محدود رہتی ۔ارشاد حسن کی بٹالہ شہر کے علاقہ بھائی دا ویہڑا کی آبائی حویلی سے جڑے محسوسات اور اس کی منظر نگاری واقعی متاثر کن ہے اور رومانوی اور جمالیاتی جذبوں کی عکاس ہے جو کہ قاری کو گہرائی سے ملوث کر لیتی ہے ان کے اس جملے نے تو مجھے بہت متاثر کیا جس میں صداقت بھی ہے کہ’’ بٹالوی جب بھی ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو دل جان سے ایک دوسرے کی عزت اور مدد کرتے ہیں‘‘کسی بھی فرد کی یہ خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اس کی ملاقات اس کے رول ماڈل سے ہو جائے اور وہ اس کے پیشہ کو بھی اختیار کر لے اور جسٹس(ر) صاحب بھی انہیں خوش قسمت افرد میں شامل ہیں انہوں نے بچپن سے ہی باباے قوم قائدا عظم کو کم عمری میں ہی اپنا رول ماڈل جانا نہ صرف یہ کہ قائدا عظم اور مادر ملت فاطمہ جناح کے ساتھ تصویر بنانے کا موقع بھی میسر ہوا اس پر ارشاد صاحب کہتے ہیں کہ قائد اعظم کے ساتھ بننے والی تصویر تو نہ جانے کہاں کھو گئی البتہ انکی شخصیت کے اثرات مجھ پر ثبت ہو گئے یہی وجہ تھی کہ کام کام اور بس کام کی لگن کے باعث مجھے چیف جسٹس آف پاکستان اور قائم مقام صدر پاکستان جیسے اعلی منصبوں پر خدمات کا شرف دستیاب ہو سکا۔
 کتاب کی ایک خوبصورتی یہ کہ مصنف اپنی سوانح حیات لکھتے ہوئے نرگسیت کا شکار نہیں ہوئے اور اپنی تعریف و توصیف سے اجتناب کیا کتاب میں خود تعریفی کی نسبت خود اعتمادی کا پہلوکا غلبہ نظر آتا ہے جس کی یتیمی اور مفلسی کے ہمراہ قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والا بچہ اپنی محنت اور کامل یقینی اور اعتماد کی بدولت نامساعد حالات کے با وجود بھی پاکستان کے اعلی ترین قانونی عہدہ پر فائز ہونے کے قابل ہو سکا۔

ای پیپر دی نیشن