میری پیاری ماں ‘وہ ماں جو خدا کا مجھ پر پہلا احسان تھا، جس نے محبت کے لفظ کو سیکھنے سے پہلے مجھے اپنی محبت میں مبتلا کر دیا، جس کی چھاتی سے پھوٹنے والے نور نے آٹھ دہائیوں کے بعد بھی مجھے قوت اور طاقت عطا کر رکھی ہے، وہ ماں جس نے لوریاں دیکر مجھے سلایا اور جب میں بے اختیار ہو کر رویا اس نے مجھے سینے سے لگایا، میرے دکھ کو مجھ سے زیادہ محسوس کیا، وہ ان لمحوں میں میری زبان بنی جب میں بول بھی نہیں سکتا تھا، اس نے میرے دکھ درد کو پہچانا اس وقت جبکہ میں خود دکھ درد کے مفہوم سے ناآشنا تھا۔ آہ میری ماں! کہاں ہو تم! بڑھاپے میں ماں کا خیال اب بھی مجھے بچہ بنا دیتا ہے، اسی معصومیت کے ساتھ جو بچپن میںتھی۔
میری ماں صابرہ اور شاکرہ خاتون تھیں انتہائی ملنسار اور مہمان نواز… 1945ء میںایک دفعہ ٹرین حادثہ ہوا دہلی سے شملہ جاتے ہوئے۔ حادثے میں تو بچ گئیں لیکن خوف طاری ہو گیا، بیمار ہوئیں چار بیٹوں، پانچ بیٹیوں اور خاوند کو سوگوار چھوڑ کر راہی ملکِ عدم ہوئیں، کبھی واپس نہ آنے کیلئے…!
اللہ کسی کی ماں کو اس سے جدا نہ کرے، آٹھ دہائیوں کے گزرنے کے بعد بھی ماں کی موت کا دکھ ہرا ہے، سینہ پھٹا جاتا ہے اور آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ میں اب بھی کہیں چھپ کر ان آنسوئوں میں اپنی ماں کو ڈھونڈتا ہوں، اسکے لمس کو محسوس کرتا ہوں، اس کی خوشبو اب بھی نس نس میں باقی ہے، جب تک زندہ ہوں اس کا لمس اور اسکی خوشبو جدا نہیں ہو سکتی، وہ اب بھی اپنے بچے کے ساتھ ساتھ چلتی پھرتی محسوس ہوتی ہے، میری خوشی میں خوش اور میرے ہر غم میں نڈھال، افسردہ! میری والدہ کا جب انتقال ہوا تو میں انکے پاس موجود تھا، انہیں شاید اپنے انتقال کی خبر تھی، انہوں نے مجھے کہا کہ میں انکے ایک قریبی رشتہ دار کے پاس جائوں اور انہیں بلا لائوں، وہ اس وقت کلمہ شریف کا ورد کر رہی تھیں، میں بھاگم بھاگ اپنے عزیز کے گھر گیا، لیکن جب انہیں لئے واپس پہنچا تو میری والدہ انتقال کر چکی تھیں، میری والدہ صوم و صلوٰۃ اور درود ،و سلام کی پابند تھیں۔ انکے منہ سے ہمیشہ کلمہ، درود اور اذکار و وظائف جاری رہتے، وہ ہمیشہ اپنے رب کی یاد میں مشغول رہتیں، مجھے ساری زندگی ان کی روحانی قوت کے حصار کا احساس رہا، میں اب بھی خود کو انکے روحانی حصار میں محسوس کرتا ہوں، زندگی میں ہمیشہ انکا روحانی حلقہ میرے لیے عزت و احترام، حفاظت اور کامیابی کا ذریعہ رہا، میری والدہ میرے والد کے ساتھ انتہائی محبت اور احترام کے رشتہ میں بندھی ہوئی تھیں۔
میرے ابّا منظور حسن خاں مرحوم و مغفور پکّے ککے زئی تھے۔ اپنی صورت کی جاذبیت، رنگ کی گھلاوٹ، آنکھوں کی مروّت، لہجے کی نرماہٹ، تکلم کی خوبصورتی، چہرے کی مسکراہٹ، مزاج کی شرافت اور کردار کی بے مثال نجابت کے ساتھ میرے تصور میں زندہ و تابندہ ہیں، میں بے اختیار اپنے بڑھاپے کو بھلا کے بچہ بناان کی شفقت تلے راحت اور سکون محسوس کرتا ہوں، منظور حسن خاں نستعلیق قسم کے سرکاری آفیسر تھے، نظم و ضبط، رکھ رکھائو اور ڈسپلن کے پابند۔ علامہ اقبالؒ سے انکی بہت مشابہت تھی۔ انکی تصویر کو دیکھ کر اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے… خون کی تاثیر کے ذریعے انکی کئی عادتوں کا میں امین ہوں۔والد محترم… منظور حسن خاں نے والدہ کے انتقال کے بعد محسوس کیا کہ گھر گرہستی کیلئے بھائی اورنگ زیب خاں کی شادی کر دی جائے، 28 دسمبر 1946ء کو شادی طے ہوئی، شادی سے چند دن پہلے والد محترم کو نمونیہ ہو گیا اور وہ شدید علیل ہو گئے، شادی ملتوی کرنے کی تجویز پیش کی گئی جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔
28 دسمبر 1946ء کو بارات وقت مقررہ پر آئی اور اسی دن ان کا انتقال ہو گیا۔ بھائی جان اورنگزیب خاں صاحب کی دلہن جس چوکھٹ سے داخل ہوئیں، اسی دن والد کا جنازہ اسی دروازے سے نکلا، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور انکی غلطیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف کرے، انکے انتقال کے وقت میری عمر تقریباً نو برس تھی۔ نو دس سال کا بچہ ماں کی محبت اور باپ کی شفقت سے محروم ہو گیا۔ ہندوستان آزادی کے نعروں سے گونج رہا تھا، میں اور میرا پاکستان انتہائی نامساعد حالات میں نئی زندگی کا آغاز کر رہے تھے۔ صرف اللہ رب العزت کے آسرے پر جو رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی تمام تعریفیں اسی کیلئے ہیں ہر اول سے اول ہے اور ہر آخر سے آخر ’’ھوالاول والآخر! (القرآن)
میری زوجہ مرحومہ 9مئی 2013ء کو رحلت فرما گئیں’’ اناللہ واِناَ اِلیہ راجعون‘‘بہت ہی نیک خاتون تھیں زندگی میں اُن کا مشغلہ ہی عبادت تھا۔ رشتہ دار یا جاننے والوں نے کبھی اُن سے گِلہ شکوہ نہیں کیا انکے انتقال کے بعد ہر ایک اُنہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتا ہے۔ وہ ایک مکمل مشرقی مذہبی خاتون تھیں۔ ہمہ وقت تسبیح پڑھتی رہتی تھیں ۔مجھ سے اور بچوں سے عملی طور پربے حد محبت کرتی تھیں لیکن ظاہر نہیں ہونے دیتی تھیں۔ کم بولتی تھیں ا وردوسروں کی باتیں خاموشی سے سُننا اُن پر ختم تھا۔ عجزوانکسار کا مجسمہ تھیں۔ ملازمین کو ڈانٹنے کے بعد ان سے معافی مانگ لیتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی میں بڑے بڑے عہدوں سے نوازا لیکن میری مرحومہ بیوی بڑی سادگی سے رہتی رہیں کبھی تکبر نہیں کیاکہ انکے شوہربڑے عہدے پر فائزہیں ۔ یہی حال میرے بچوں کا تھا جونہی میر ی اہلیہ کو قبر میں اتارا گیاانکی قبر روح کو معطر کر دینے والی خوشبو سے بھر گئی۔ ان کا انتقال جمعرات کو ہوااور جمعہ کو ان کو دفنا دیا گیا۔ انکے جنازے پر بہت لوگ آئے اُنہیں جاننے والوں میں سے ہر کوئی انکے اخلاق کی تعریف کر رہا تھا۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین!
میر ی دنیاوی ترقی کے پیچھے میری مرحومہ بیوی کا کردارمیری اپنی اہلیتوں اور صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ہے۔میں ہر وقت ـاپنے کام میں مصروف اور مشغول رہتا تھا۔میری مر حومہ بیوی نے مجھ سے کبھی شِکوہ نہیں کیا کہ میں انہیں بھی وقت دوں وہ میری بھلائی صحت اور ترقی کیلئے ہر وقت دُعا گو رہتیں اور میر ی نظر اتارتی رہتی تھیں۔