ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے کیوں ہیں اورمغرب کے مقابلے میں تقریباً ہر میدان میں پچھڑنا کس باعث ہے۔ یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے۔ اور ہمیں فزکس کے استاد ہونے کے باعث بہت مرتبہ اس سوال کا سامنا ہوا ہے۔ اس کا جواب کئی زاویوں سے تلاش کیا سکتا ہے۔ اورہم نے بھی اپنے تئیں کئی انداز کے جواب تلاش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک پہلو کی جانب ہماری توجہ اس وقت گئی جب یہ سنا کہ پی ٹی آئی حکومت ایک تعلیمی نصاب پرکام کر رہی ہے۔ یہ بہت انقلابی اور نہایت ضروری کام ہے۔ خدا کرے ہم اس میں کامیاب ہوں۔ سائنسی و سماجی علوم میں ترقی کا ایک اہم عامل کسی قوم خصوصاً نوجوان نسل کی خود اعتمادی ہے۔ اگر قوم کا ماضی شاندار ہو، اسے مثبت انداز میں عظمت رفتہ اس طور یاد کروائی جائے کہ دل میں ترقی کی امنگ پیدا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی حالت بدلنے پر قادر نہ ہوسکیں۔
دین اسلام نے علم کی وہ فضیلت و اہمیت بیان کی ہے کہ کسی اور مکتب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب تک مسلمانوں نے قرآن وسنت کے مطابق علم کی اہمیت کو جانا اور اپنایا، عالم اسلام دینی و دنیوی دونوں حوالوں سے بام عروج پر متمکن رہا اور جب علم سے دور ہوئے تو روحانیت و اعلیٰ کردار اور دنیوی ترقی دونوں لحاظ سے پستیوں میں جاگرے عظمت رفتہ اور اعلیٰ قدروں کے حصول کی خاطر ہمیں دوبارہ قرآن و سنت کی حیات آفریں تعلیمات کی جانب لوٹنا ہوگا۔ اور اس کا ایک طریقہ یہ ہیکہ نصاب تعلیم میں ایسے علمائ و ماہرین علوم کے ذکر کو شامل کیا جائے کہ جو علوم میں پورے عالم کے رہنما بنے۔ ان کی ترقی بخش زندگی نوجوانوں میں خود اعتمادی اور تشویق علم و عمل پیدا کرے گی۔ ایسے ہی نابغہ روزگار علماء میں سے ایک خواجہ نصیرالدین طوسی ( 1201- 1274ء ) ہیں ان کی علمی جہات، اختراعات و ایجادات اور تعلیمات و اخلاقیات کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ نصیرالدین محقق طوسی فلسفہ، عرفان، کلام، ریاضیات، فلکیات ایسے بہت سیعلوم میں ناصرف یکتائے روزگار تھے بلکہ انہیں کئی ایسے علوم کا بانی مانا جاتا ہے کہ جن علوم کے باعث آنے والے زمانے نے ہوش ربا ترقی کی۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا کے مطابق محقق طوسی نے مراغہ (تبریز) میں 1259ء میں سائینسی بنیادوں پر دنیا کی بہترین اور اس وقت کی سب سے بڑی اور جدید رصد گاہ قائم کی۔ اسی باعث طوسی کو جدید رصد گاہ قائم کرنے والا باقاعدہ ماہر فلکیات تسلیم کیا گیا ہے۔ اس رصد گاہ میں طوسی نے ٹیلی سکوپ کی ایجاد سے قبل ہی نظام شمسی کے سیاروں کے مداروں کی نشاندھی کی اور ان کو حسابی شکل دی۔ فلکی نقشے اور جدول مرتب کیے۔ ٹیلی سکوپ اور جدید آلات کی ایجاد کے بعد طوسی کے مداروں کو حیرت انگیز طور پر درست دیکھا گیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ہی نے لکھا کہ بہت سے علمی حلقوں کے مطابق کوپرنیکس کے جدید مدار، جن پر جدید فلکیات کی بنیاد رکھی گئی، دراصل طوسی ہی سے اخذ کیے گئے ہیں۔
طوسی ہی وہ ماہر ریاضی ہیں جنہوں نے مثلثات کے علم کو علم فلکیات سے جدا کیا اور اسے علم ریاضی کی ایک علیحدہ شاخ کے طور پر منظم کیا اوراس پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی۔ نیز مثلثات کے علم میں گراں قدر اضافہ کیا۔ سائنس کے ایک وقیع جریدے "نیچر" کے جون 2013 کی اشاعت میں ایک تحقیقی مضمون میں ذکر کیا گیا کہ نصیرالدین طوسی نے علم جیومیٹری میں ایک گراں قدر اضافہ کیا جسے دنیائے سائنس آج بھی "طوسی کپل" کے نام سے یاد کرتی ہے۔ اس کے مطابق طوسی نے دو دائروی حرکت کے ذریعے دائروی حرکت کو حرکت خط مستقیم سے جوڑ دیا۔ طوسی کپل کے ذریعے سیاروں کے مدار اور ان کی حرکت درست طور پر جانی گئی اور یہی بعد ازاں کوپرنیکس کے سیاروی مداروں کی بنیاد بنا۔ علم فلکیات میں بے مثال خدمات اور مثلثات کی شاخ کے بانی کے طور پر ان کی بے نظیر خدمات پر خراج تحسین کے طور پر چاند کیایک بڑی گھاٹی کا نام "نصیرالدین" رکھا گیا۔ علم عقائد پر محقق طوسی کی معرکہ آراء کتاب "تجرید العقائد" پر بہت سے سنی و شیعہ علماء نے شرحیں لکھیں اور یہ آج بھی بلا لحاظ مکتب بہت سیسنی شیعہ مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔ طوسی عالم اسلام کے ایک بہت بڑے عارف و معلم اخلاق مانے جاتے ہیں۔ آپ کی کتاب اخلاق ناصری آج بھی انفرادی، خاندانی اور معاشرتی اخلاق کے اصولوں، تعلیمات، اور کردار سازی کے لیے ایک مؤثر کتاب ہے۔آخر محقق طوسی نے مختلف علوم میں اس قدر حیران کن کامیابیاں کس طرح حاصل کیں، اسی کا تجزیہ ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں مددگار ثابت سکتا ہے۔ طوسی کے والد خود ایک بڑے عالم تھے اور انہوں نے ابتدائی علوم اپنے والد اور تربیت اپنے گھر کے ماحول سے حاصل گویا ہمیں اپنے گھروں کے ماحول کو علم دوست اور تضیع اوقات سے پاک کرنا ہوگا۔
ابتدائی تعلیم کے بعد تخصص کے لیے طوسی نے بہت سے شہروں کا رخ کیا اور ہر علم کے وقت کے سب سے بڑے ماہر سے استفادہ کیا۔ ان دنوں سفری مشکلات کے باوجود اتنے زیادہ اور دور دراز کے شہروں میں جانا ان کے شوق علم کو ظاہر کرتا ہے۔ فقہ، عرفان، فلسفہ،حکمت اور حدیث وغیرہ کے علوم کے لیے اس وقت کے علمی مرکز نیشاپور میں اپنے وقت کے بڑے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ جب یہ دیکھا کہ اب مزید علمی آبیاری کے لیے کچھ اور شہروں کا سفر کرنا پڑے گا تو رے شہر، اصفہان اور قم گئے۔ پھر علم فقہ کے لیے عراق کا سفر اختیار کیا۔ جب پتہ چلا کہ علم فلکیات و ریاضی کا ایک بڑا استاد موصل میں ہے تو ان سے استفادے کے لیے موصل گئے۔ اور ایک وقت یہ آیا کہ نصیرالدین طوسی خود فلککیات، ریاضی، فلسفہ، حکمت اور علم اخلاق کے ایک بہت بڑے عالم و استاد بن گئے۔ یہاں ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ علمی ترقی کے لیے اچھے اساتذہ کی فراہمی لازمی امر ہے۔ اسی لیے علم کے متلاشی ہزاروں میل کا سفر کیا کرتے تھے۔ آج کل ترقی یافتہ دنیا سے پروفیسرز بلا کر یا آن لائین لیکچرز اور ترقی یافتہ اداروں اور یونیورسٹیز سے علمی وعملی روابط کے ذریعے اس کمی کو پورا کرنا ہوگا۔ طوسی کی زندگی ہی سے ہمیں یہ سبق بھی ملتا ہے کہ علمی ترقی صرف تعصب سے پاک معاشرے ہی میں ممکن ہے۔ طوسی خود بڑے شیعہ عالم تھے مگر انہوں نے نیشا پور اور پھر عراق میں کئی سنی علماء سے عرفان، فلسفہ اور دیگر علوم میں بھر پور استفادہ کیا۔ مستزاد ان کی قائم کردہ رصد گاہ دراصل ایک یونیورسٹی تھی جس میں فلکیات، ریاضی، فلسفہ، فقہ اورطب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس میں 4 لاکھ کتب پر مشتمل اس وقت کی دنیا کی بہترین لائیبریری تھی۔ اس رصد گاہ و جامعہ میں پوری اسلامی دنیا حتی اندلس کے اساتذہ اور ماہر علوم بلا لحاظ مکتب و فرقہ تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے تھے اور اس کا انچارج طوسی نے اس زمانے کے معروف سنی عالم نجم الدین قزوینی الکتابی (600ھ -675ھ) کو بنایا تھا۔ یہ ثابت کرتا ہے علم صرف غیر متعصب ترقی پسند معاشرے ہی میں پنپ سکتا ہے۔ دینی و سائنسی علوم میں ترقی اورمعاشی و معاشرتی عروج کے لیے ہمیں محقق طوسی ایسے علمائ و سائنسدانوں کی سوچ اور طرز زندگی اپنانا ہوگا۔