امریکہ نے طالبان اور افغان حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ داعش کے عسکریت پسندوں کو پہلے سے ہی کشیدہ صورتحال کو مزید خراب کرنے سے روکنے کے لیے جاری امن عمل میں سنجیدگی سے مشغول ہوں۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واشنگٹن میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ 'ہم ابھی بھی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کون ذمہ دار ہے لیکن میں نشاندہی کروں گا کہ ماضی میں کابل میں شیعہ برادریوں پر بھی اسی طرح کے حملوں میں داعش ذمہ دار رہا ہے'۔افغانستان کے دارالحکومت میں ہفتے کے روز اسکول حملے میں کم از کم 80 افراد ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تر طالبات تھیں۔اس حملے کی پوری دنیا نے شدید مذمت کی ہے۔امریکا نے مذمت سے ایک قدم آگے بڑھایا اور طالبان کی شمولیت سے انکار میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے ان سے تقریبا نصف صدی سے جنگ میں ملوث ملک میں امن قائم کرنے کے لیے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اپیل کی۔نیڈ پرائس نے کہا کہ 'طالبان نے حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور ہم ان کے آنے والے عید کی تعطیلات پر 3 روزہ جنگ بندی کے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں'۔ان کا کہنا تھا کہ 'ہم طالبان اور افغان رہنماوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ امن کے جاری عمل میں سنجیدگی سے مشغول ہوں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ افغان عوام دہشت گردی اور تشدد سے پاک مستقبل کا لطف اٹھائیں'۔امریکی عہدیدار نے 'لڑکیوں کے اسکول میں معصوم افغان بچیوں کو نشانہ بنانے' کے ذمہ داروں کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ زیادہ تر لڑکیاں نو عمر تھیں اور انہیں 'تعلیم اور روشن مستقبل کے حصول کی وجہ سے مارا گیا'۔واضح رہے کہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ان کی تنظیم اس حملے میں ملوث نہیں ہے اور انہوں نے 'ظالمانہ اور بلاجواز تشدد' کی مذمت کی تھی۔نیڈ پرائس نے کہا کہ 'ہم اس اعلان اور ایسے ہر اقدام کا خیرمقدم کرتے ہیں جس سے افغان عوام تشدد سے دور رہے، ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس جنگ بندی میں توسیع کرے اور تشدد میں نمایاں کمی کا حکم دے'۔ نیوز بریفنگ کے دوران چند صحافیوں نے جو بائیڈن انتظامیہ کے طالبان پر اعتماد پر بھی سوالات اٹھائے اور خبردار کیا کہ امریکی انخلا کے بعد اس طرح کے حملوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔یہاں تک کہ چند نے یہ بھی مشورہ دیا کہ آئندہ حملے، اگر شدید ہوں تو، امریکی فوج کو افغانستان واپس جانے پر مجبور کرسکتے ہیں۔تاہم امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا افغانستان کو نہیں چھوڑ رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اپنی فوج واپس بلارہے ہیں، ہم افغانستان سے الگ نہیں ہو رہے ہیں'۔انہوں نے کہا کہ 'ہم اپنے سفارتی، معاشی اور انسان دوست ٹولز کا استعمال جاری رکھیں گے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ گزشتہ 20 سالوں کے ثمرات خصوصا خواتین اور اقلیتوں کے حاصل کردہ حصول کو محفوظ رکھا جائے'۔انہوں نے طالبان کے اعلان کا خیرمقدم کرنے اور ان پر جنگ بندی میں توسیع کی درخواست کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ 'ہم سب جانتے ہیں کہ تشدد کی واپسی افسوسناک ہوگی، ہم طالبان کو یاد دلاتے ہیں کہ تشدد میں ملوث ہونا اس کے جواز اور استحکام کا متحمل نہیں ہوگا'۔انہوں نے کہا امریکا نے ہمیشہ ہی تمام افغان دھڑوں پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے لیے ایک سیاسی روڈ میپ طے کرنے کے لیے سنجیدہ مذاکرات میں مشغول ہوں جس سے انصاف پسند اور پائیدار تصفیہ ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری کوششوں کا مرکز ایک منصفانہ اور پائیدار تصفیہ ہے، ہمیں یہ معلوم ہے کہ یہ کسی کے مفاد میں نہیں کہ افغانستان کو ایک بار پھر خانہ جنگی میں ڈال دیا جائے، یہ طالبان کے مفاد میں نہیں، یہ افغانستان کی حکومت کے مفاد میں نہیں ہے، یہ افغانستان کے پڑوسیوں کے مفاد میں نہیں ہے اور یہ یقینی طور پر افغانستان کے لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے'۔