مکرمی! آج کل کے ملکی اور معاشرتی حالات کو دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتاہے کہ ہم اپنے خالق کے احکامات سے کتنا دور ہوتے جارہے ہیں۔ ملک میں عدل و انصاف کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ عام آدمی انصاف کی تلاش میں دربدر پھررہاہے۔ فیصلے کے منتظر مقدمات کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ زیادہ رنج اس وقت ہوتاہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ امیر و غریب کیلئے انصاف کے پیمانے الگ الگ ہیں۔اسلام دین فطرت ہے اور اس میں جن اصولوں پر انسانی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی ہے، ان میں عدل و انصاف کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ دربارِ رسالت سے جو فیصلے صادر ہوئے وہ حق و انصاف کی روشن مثالیں ہیں۔ حضرت عمرفاروقؓ اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے نادر فیصلے تاریخ میں بے مثال جانے جاتے ہیں، اور ان کی بے پناہ ذہانت اور فراست پر دلالت کرتے ہیں۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ’ بادشاہ کا ایک دن عدل و انصاف سے حکمرانی کرنا ساٹھ سال کی مسلسل عبادت سے افضل ترہے‘۔ ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جوسات قسم کے افراد اللہ تعالیٰ کے سائے میں ہوں گے ان میں اولین درجہ عادل بادشاہ کاہوگا۔یہ یادرکھیں کہ عدل و انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہمیشہ فساد کا باعث بنتی ہے۔ اور جس معاشرہ میں عدل باقی نہ رہے اس کانظام تباہی کا شکار ہوجاتاہے۔ امید ہے کہ ہمارے حکمران قرآن و سنت کی روشنی میں نظام عدل کو قائم کریں گے تاکہ ملک سے بے انصافی، لوٹ کھسوٹ،ظلم اور جھوٹی گواہی کا دور ختم ہو، دین فطرت کی صالح اقدار فروغ پائیں اور عوام اسکی برکتوں سے مستفید ہوں۔ (محمد اسلم چوہدری ،فون:0347-5795554)
عدل وانصاف اور معاشرہ
May 11, 2022