جب لوگ رمضان کے مہینے میں رکھے گئے روزوں اور عبادت کے انعام میں عید الفطر کے منتظر تھے ،عین انہی دنوںایک افسوس ناک خبر نے ساری خوشیاں افسردگی میں بدل دیں، یہ خبر لالہ خالد سعید کی اچانک رحلت کی تھی۔خبر نے دل گرفتہ کر دیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موت مسلمہ حقیقت ہے جس کا ذائقہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے ۔ مگر دل کا کیا کیا جائے کہ ایسی خبر کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکاری رہتا ہے۔ ایسی صورت میں جبکہ کوئی جانے والا دل سے جتا قریب ہو اس کے جانے کا اتنا ہی زیادہ دکھ ہوتا ہے۔ لالہ خالد سعید سے میری یاد اللہ گورنمنٹ کالج ملتان میں1987میں شروع ہوئی جو کم و بیش پینتیس سالوں پر محیط رہی۔میرے لیے یہ بات کسی اعزاز سے کم نہیں کہ گورنمنٹ کالج( کل کا بوسن روڈ، آج کا ایمرسن کالج) میں جن دوستوں اور بزرگوں کی شفقت اور سایۂ عافیت نصیب ہواان میں نواز قاسمی، نذیر چیمہ، خورشید انور، بشیر طاہر،چودھری صدیق،سعید حسن جعفری،حامدعلی ہاشمی، صفدر حسین صفدر، سرور گوندل، صلاح الدین حیدراور خالد سعید کی رفاقت زندگی کے کسی لمحے فراموش نہیں کی جا سکتی۔ انہی اساتذہ سے نظریاتی افکار کی ہوائے تازہ بھی میسر آتی رہی۔ جنہوں نے مجھے اپنی خاص محبت کا مستحق سمجھا۔احباب بے تکلفی میں انہیں لالہ یا خالدی کہہ کر پکارتے ، بھابھی بھی انہیں اسی نال سے بُلاتیں۔اپنی ذات میں انجمن اور ہر انجمن کی جان ۔جس محفل میں ہوتے، اسے کشتِ زعفران بنائے رکھتے۔ ڈاکٹر صلاح الدین حیدر رشتے میں ان کے ماموں اور عمر میں ان سے چند سال چھوٹے ہیں۔وہ علمدار کالج سے تبدیل ہو کر بوسن روڈ کالج تشریف لائے تو لالہ کافی اپ سیٹ دکھائی دیے۔ ایک دن پرنسپل ڈاکٹر جی ایم ملک سے کہنے لگے، ’’ملک صاحب ! میرا مسئلہ حل کریں، ماما جی نے بوسن روڈ جوائن کر لیا ہے، اب مجھے تمام سٹاف کو ’’ماما‘‘ کہنا پڑے گا‘‘۔90کی دہائی میں انہوں نے زکریا یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات، فلاسفی اور سوشیالوجی کی بنیاد رکھی۔ شبانہ روز محنت سے ان تینوں شعبوں کا نصاب ترتیب دیا جو کسی بھی یونیورسٹی کے نصاب سے اعلیٰ اور21ویں صدی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تھا۔
وہ اپنے نظریے میں بڑے واضع اوردبنگ اظہار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔متعدد واقعات ان کی ان صلاحیتوں کے گواہ ہیں۔ پروفیسر سعید اعوان ڈائریکٹر بنے،انہیں وہم تھا کہ اساتذہ کلاسز لینے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ انہیںحاضری رجسٹر چیک کرنے کا شوق تھااساتذہ کو یہ بات نا پسند تھی ۔ایک روز بوسن روڈ آئے اورخالد سعید کے ہتھے چڑھ گئے۔ واقعہ یوں ہے کہ خالدی کلاس پڑھا رہے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ پڑھاتے ہوئے سیگریٹ ضرور پیتے۔اس روز بھی وہ سگریٹ انگلیوں میں دبائے کلاس پڑھا رہے تھے، ڈائریکٹر صاحب نے دروازے کی اوٹ سے دو تین بار جھانکاپھر وہ اچانک رجسٹر پر جھپٹے۔ یہ ناگہانی صورتحال خالدکے وہم وگمان میں بھی نہ تھی، انہوں نے ، ڈائریکٹر کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے، غصے سے کہا، ’’تم ہوتے کون ہو، رجسٹر کو ہاتھ لگانے والے؟انہوں نے کہا میں ڈائریکٹر ہوں‘‘،اگر آپ ڈائریکٹر ہیں تو آپ کو اتنے مینرز تو ہو نے چاہیئیں کہ پہلے اجازت لیں‘‘،انہوں نے تیوربھانپ لیے اور کھسکنے میں عافیت جانی۔ خالد سعید نے بات آئی گئی نہیں ہونے دی، کلاس کے اختتام پر ڈائریکٹر آفس گئے انہیں کہا،’’ میں آپ سے، آپ کی شکایت کرنے آیا ہوں،آپ نے آج میری انسلٹ کی‘‘،ڈائریکٹر لاجواب ہو گئے، انہیں معافی مانگ کر جان چھڑانا پڑی۔ڈاکٹر احسان دبنگ پرنسپل مشہور تھے، ایمرسن کالج آئے تو ایک دوست سے پوچھنے لگے،’’ سنا ہے خالد پرنسپلوں کی پھینٹی لگاتا ہے‘‘ دوست نے پکا منہ بنا کر کہا،’’آپ نے درست سنا، بچ کے رہنا‘‘بعض اوقات ایسامذاق کرتے جو گلے پڑ جاتا ایک روز کالج آتے راستے میں سرور گوندل کے دروازے پر رکے، بیل دی، بھابھی دروازے پر آئیں تو کہنے لگے’’ بھابی! گوندل دی منہ زور جوانی نوں ڈک کے رکھو‘ ‘ بعد میں گوندل کو عرصے تک خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نواز قاسمی اور عابد عمیق میں گاڑھی چھنتی تھی، پھر اچانک دعا سلام سے بھی گئے، ایک روز میں نے کہا’’لالہ! ان کی صلح کروا دو‘‘ مسکرائے، کہنے لگے تمیں پتا ہے؟ یہ لڑائی میںنے ہی کروائی ہے‘‘ خالد نے عابد عمیق سے
مذاق میں بات کہی ، وہ اسے سنجیدہ لے گئے۔
وہ پنجابی زبان میں شاعری بھی کرتے تھے خصوصاً نظم پر انہیں مکمل دسترس تھی ۔ انہوں نے فلاسفی اور نفسیات کے موضوع پر بھی بہت کچھ لکھا۔ان کی نفسیات پر ایک کتاب ’’ناؤس‘‘ ان کی رحلت کے دن شائع ہوئی، جس کا وہ آخری سانس تک انتظار کرتے رہے۔ وہ ’’ملتان آرٹس فورم‘‘کے بانی تھے ، فورم کے ہفتہ وار اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے، حتی کہ ڈاکٹر نعمت الحق کے بقول،آخری بار وفات سے چند دن پہلے فورم میں اس حالت میں تشریف لائے کہ ہاتھ میں ’’برونولا‘‘ لگا ہوا اور نقاہت چہرے سے عیاں تھی، مگر اپنے ہاتھ سے لگائے ہوئے پودے کی آبیاری عزیز تھی۔احباب نے انہیں سہارا دے کر گاڑی میں بٹھایا اور گھر پہنچایا۔