ان لوگوں کے لئے لکھنا بہت مشکل ہو تا ہے جس سے آپ کی بہت زیادہ قربت رہی ہو وہ بچھڑتے وقت دل پر ایسا زخم چھوڑ جاتے ہیں کہ جب بھی اور کہیں بھی ان کا ذکر ہووہ زخم تازہ ہو جاتا ہے سید اشتیاق حسین شاہ گردیزی کی بابت میرے یہی جذبات ہیں ۔ میری پہلی ملاقات ممتازقانون دان سیاستدان محمد رمضان غوری کے دفتر میں 1983 میں ہوئی۔ بعد ازاں یہ تعلق ان کے دارلبقاءروانگی تک قائم رہا۔سماجی و ادبی شخصیت سید اشتیاق حسین گردیزی وفاقی دارالحکومت کے نواحی گاﺅں گنگوٹہ سیداں میں ممتاز عالم دین علامہ سید عنایت حسین گردیزی کے ہاں پیدا ہوئے ۔راولپنڈی حصول تعلیم کے مراحل طے کرنے کے بعد ملٹری اکاﺅنٹس میں خدمات انجام دینے کے بعدریٹائرہوئے ۔انتہائی نفیس ،وضع دار شفیق اور مخیر شخصیت تھے مستحق اور لاچار انسانوں کی مدد اور خدمت سے انہیں سکون ملتا تھا ۔سید اشتیاق حسین گردیزی کا ادب سے گہرا تعلق تھا ،فیض احمد فیض ،احمد فراز ،پروین شاکر ،عبدالحمید عدم ،جون ایلیا،محسن نقوی کے شعری مجموعے ان کے زیر مطالعہ رہتے تھے ۔سیاسی سماجی اور صحافتی حلقوں میں انہیں قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا ۔مرحوم ساری زندگی غربا مساکین اور ضرورت مندوں سے تعاون کرتے رہے۔ذکر اہلبیت اور ذکر حسین خوبصورت انداز سے کرتے کہ ایمان تازہ ہو جاتا ۔مجالس اور عزاداری میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے ۔بین المسلمین کے مبلغ تھے دوسرے لفظوں میں رواداری اور محبت کے پیامبر تھے ،ادبی محفلوں کی جان تھے ۔مجھ سمیت متعدد دوست ان کے بچھڑ جانے کے بعد ان کی بے لوث شفقت سے محروم ہو گئے ان کی کمی تادیرمحسوس ہوتی رہے گی ۔گذشتہ سال ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہونے کے بعد ایک ماہ تک زیر علاج ہے ۔ان کے بھائیوں سید طاہر حسین گردیزی اور سید مبشر حسین گردیزی نے علاج معالجہ پر بے پناہ اخراجات کئے ۔ان سے ان کے دوستوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ہسپتال میں رات دن قطاریں لگی رہیں لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا سید اشتیاق گردیزی جانبر نہ ہو سکے اور 29ستمبر 2021کو راہی عدم ہو گئے ، فیصل آباد کے خالد شریف نے درست کہا تھا
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی.... اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
(ملک محمد اشرف ،راولپنڈی )