فیصل ادریس بٹ
عمران خان کی نیب میں گرفتاری کی خبر پر ملک کے دیگر شہروں کی طرح بلوچستان کے مختلف شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے مظاہروں میں ایک شخص کی ہلاکت بھی ہوئی۔ اس حوالے سے یہ اہم سوال ہے کہ پولیس اہلکاروں کو مظاہرین سے نمٹنے کے لئے اسلحہ استعمال کرنے کی اجازت نہ تھی پھر بھی جان بوجھ کر فائرنگ کر کے حالات خراب کرنے کی کوشش کس نے کی؟ جو بھی اس مجرمانہ فعل میں ملوث ہے اسے بے نقاب کیا جائے۔ اس بے گناہ نوجوان کی نعش پہ اب سیاست نہ کی جائے۔ کوئٹہ میں جس طرح مظاہرین نے ڈی ایچ اے کے دفاتر اور پولیس چوکیوں پر دھاوا بولا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر مظاہرین کو سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ اس وقت بلوچستان میں ایسے ہی سکیورٹی دہشت گردوں کے ساتھ نبردآزما ہے اور قربانیاں دے رہی ہے۔ اس طرح کے واقعات سے عوام کو اپنی فورسز سے بدظن کرنا کسی بھی صورت فائدے مند نہیں۔ ایسے سماج دشمن عناصر جو سیاست کی آڑ میں ایسی مکروہ حرکت کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے بھی سیاسی احتجاج کی آڑ میں بدامنی پھیلانے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے ایسے عناصر کے خلاف سخت ایکشن لینے کا حکم دیا ہے۔ گرفتاری کے ردعمل میں عسکری املاک اور کور کمانڈر ہاؤس کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی ہر محب وطن مذمت کرتا ہے۔ پاکستان کے رکھوالوں نے ایک دفعہ پھر ثابت کیا ہے کہ وہ عوام کی جانوں کے محافظ ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ، املاک کے شدید نقصان کے باوجود مظاہرین پر ایک چھڑی بھی نہیں چلائی گئی۔ آرمی چیف سید عاصم منیر کی سکیورٹی فورسز کو واضح ہدایت موجود ہیں کہ وہ مشتعل ہجوم کو نقصان پنچا کر روکنے کی کوشش نہ کریں یہ کام سول حکومت کا ہے کہ اُسے ملک بھر کی فول پروف سکیورٹی یقینی بنانی چاہئے۔ اس وقت صوبہ پہلے ہی معاشی و مالی بحران کا شکار ہے ان حالات میں سیاسی، بدامنی حالات مزید خراب کر سکتی ہے۔ حکومت نے صوبے میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ انتظامیہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کوشش کریں کہ کسی بڑے تصادم کی نوبت نہ آئے۔ احتجاج عوام کا حق ہے مگر اسے پُرامن رکھ کر استعمال کرنا بہتر ہے تاکہ جانی و مالی نقصان سے بچا جا سکے۔
یہ صوبہ بلوچستان واضح طور پر پشتو اور بلوچی بولنے میں کچھ اس طرح تقسیم ہے کہ دونوں علاقوں کے سیاستدان صرف اپنے مفادات کا سوچتے ہیں۔ کوئی نواب ہے تو کوئی سردار اچھی سے اچھی انتظامیہ بھی یہاں انہی خانوں نوابوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ سیاسی اشرافیہ بلوچ ہوں یا پٹھان علاقوں کی انہیں عوام کی ترقی اور ان کے مسائل کے حل سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ یہ صرف اپنی اپنی سیاسی دکانداری چمکانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کی سیاست کا مطمع نظر صرف اور صرف کرسی، جھنڈے والی گاڑی اور ہر کام کے عوض اپنی کمیشن وصول کرنا ہوتا ہے۔ ضیاء الحق کے دور کے بعد یہاں مذہبی گروپ بھی سیاست میں آئے ان سے امید تھی کہ وہ خود خوف خدا سے کام لیں گے مگر وہ بھی اسی رنگ میں رنگے گئے اور عوام کے مسائل سے زیادہ اپنے مسلک اور مدارس تک محدود رہے چند ایک نے تھوڑا بہت کام کیا۔ مگر یہ سب تعلیم، صحت اور روزگار کے حوالے سے زیادہ کچھ نہ کر سکے۔ انہی وجوہات کی بنا پر منہ زور انتظامیہ سامنے آئی۔ مگر سب سے بڑا نقصان صوبے کو یہ ہوا کہ یہاں میرٹ کا خاتمہ ہوا، لسانی اور قومی تعصب نے ہر جگہ کاری وار کیا بااثر فائدے میں رہے بے اثر لوگ ویسے ہی درماندہ ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے یہاں عسکریت پسندی بھی انتہا پسندی کو فروغ ملا اور حالات سے تنگ مسائل کے ستائے نوجوان گمراہ عناصر کے ہتھے چڑھ کر دہشت گردی کی طرف راغب ہوئے۔ اس کے نتیجے میں پورا صوبہ آج کل ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔
مگر اب وہاں بھی حالات زیادہ بہتر نہیں لگتے۔ گزشتہ دنوں دہشت گرد مسلح باغی تنظیم کے دو گروپوں میں کچھ زیادہ ہی اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ یوں مالی وسائل اور اسلحہ کی بندر بانٹ کے باعث پیدا ہونے والی اس ہنگامے میں ایک بڑا شدت پسند ساتھی سمیت مخالف دھڑے کے ساتھ باہمی لڑائی میں مارا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر مسلح گروپوں میں بھی جو ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے دھڑے منظر عام پر آتے ہیں ان میں بھی غیر ملکی مالی امداد کی تقسیم اور اسلحہ کی تقسیم کی وجہ ہی ہے۔ اگر حکومت بلوچستان ناراض نوجوانوں کی دلجوئی کرے ان کے علاقوں میں تعلیم صحت اور روزگار کے ذرائع پہنچائے تو یہ شدت پسندی قابو میں آسکتی ہے۔
اس وقت مالی مسائل کی وجہ سے پورا صوبہ سیخ پا ہے۔ سرکاری ملازم پریشان ہیں انہیں تنخواہ نہیں مل رہی معلوم نہیں ہوتا سالانہ اربوں روپے ملنے والے ترقیاتی فنڈز کہاں جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو اس طرف بھرپور توجہ دینا ہوگی مہنگائی نے الگ قیامت برپا کر رکھی ہے۔ گڈگورننس کی بات چھوڑیں یہاں تو حکومتی رٹ ہی نظر نہیں آرہی۔ انتظامی افسر الگ پریشان ہیں۔ تمام سیاستدانوں اور حکمران جمات کو مل بیٹھ کر ان مسائل سے نکلنے کی راہ نکالنا ہوگی۔ ورنہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا شکار یہ صوبہ مزید مسائل کا شکار ہو سکتا ہے ایسے وقت میں جب سی پیک کے تحت بہت سے منصوبے صوبہ بلوچستان میں مکمل ہو رہے ہیں۔ وسطی ایشیا سے تیل اور گیس کی فراہمی اس صوبے کے راستے شروع ہو چکی ہے تو حالات و معاملات کنٹرول کرنا مرکز اور صوبائی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے اس سے فرار ممکن نہیں۔ ملک یہ پسماندگی کا شکار صوبہ حکمرانوں کی توجہ کا مستحق ہے۔