عمران خان کو اپنی گرفتاری کا علم تھا، علاوہ ازیں وہ اپنی گرفتاری سے لاعلم تھے۔ جی، یہ دونوں اطلاعات درست ہیں۔ پہلی اطلاع یہ کہ وہ جانتے تھے کہ انہیں جلد یا بدتیر گرفتار کر لیا جائے گا لیکن ساتھ ہی انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا کہ ان کے سہولت کاروں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہم آپ کو گرفتار نہیں ہونے دیں گے اور اگر، بالفرض، گرفتار کر بھی لیا تو فوراً ہی مناسب حکم جاری کر کے رہا کرا لیں گے چنانچہ جب وہ لاہور سے اسلام آباد جانے کے لیے روانہ ہوئے تو جاتے ہوئے اپنی گاڑی سے ایک مختصر خطاب کیا اور اس خطاب میں وہ بلا کے پراعتماد نظر آئے۔ دو روز پہلے ان کی جماعت کا ایک رہنما سکرین پر یہ کہتے ہوئے پایا گیا کہ کسی کا باپ بھی ہمارے خان صاحب کو گرفتار نہیں کر سکتا۔
اپنے اس پیغام کے آخر میں عمران خان نے دو فقرے کہے۔ کہا اگر مجھے گرفتار کیا گیا تو ہو سکتا ہے، عوام بہت زیادہ تعداد میں باہر نہ نکلیں لیکن جو ہو گا وہ سری لنکا....جو پیغام یوٹیوب پر ویڈیو کی شکل میں موجود ہے، وہ سری لنکا کے نام پر کٹ جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ مکمل فقرہ کیا ہو گا۔ شاید انہوں نے کہا ہو گا کہ جو ہو گا وہ سری لنکا جیسا نہیں ہو گا بلکہ پرامن ہو گا۔ آپ جو چاہیں قیاس کر سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گرفتاری کے بعد ملک کے درجن بھر شہروں میں سینکڑوں افراد نے مظاہرے کئے۔ تین چار مقامات پر معاملہ پرتشدد ہو گیا، بالخصوص لاہور اور کراچی میں ۔ ہنگامہ آرائی میں 28 گاڑیاں اور موٹر سائیکل جلائے گئے۔ دو پولیس چوکیاں نذر آتش کی گئیں، ایک رہائش گاہ، مسلم لیگ کا ماڈل ٹاﺅن والا دفتر بھی جلا دیا گیا۔ کاروں کا ایک شو روم بھی نذر آتش ہوا۔ گھیراﺅ جلاﺅ کے تمام تر واقعات لاہور اور کراچی میں ہوئے۔ پشاور میں چاغی ایٹمی دھماکوں کی یادگار ماڈل پہاڑی اور ایک دوسرے شہر میں لڑاکا طیارے کی ڈمی جلا دی گئی۔ کوئٹہ میں فائرنگ سے ایک کارکن مارا گیا۔ پنڈی میں اہم عمارت کا گھیراﺅ کیا گیا لیکن پولیس نے بالآخر بلوائیوں کو بہت دور دھکیل دیا۔
کہا گیا تھا کہ عمران خان گرفتار ہوئے تو عوام سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ ہوا یہ کہ مختلف شہروں میں، مختلف مقامات پر جتھّے تو ضرور نکلے، عوام کہیں بھی نظر نہیں آئے۔ ہو سکتا ہے نکلے ہوں لیکن میڈیا نے ان کا بلیک آﺅٹ کیا ہو۔ لیکن حیرت کی بات ہے۔ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا والی ان گنت آﺅٹ لٹس پر بھی ان ”بڑے بڑے عوامی مظاہروں“کا بلیک آﺅٹ کیا گیا۔ حالانکہ ان تمام ویڈیوز پر ملتے جو مناظر پی ٹی آئی کی اس مشینری نے دکھائے، اس میں محض جتھے تھے، کہیں سو پچاس کے، کہیں دو تین سو کے اور کہیں پانچ چھ سو کے۔ سب سے بڑا جتھہ لاہور کینٹ میں دیکھا گیا جو ایک ہزار کے لگ بھگ تھا، دوسرا جتھہ ماڈل ٹاﺅن میں تھا، وہ کوئی چار سو افراد کا تھا۔ پشاور میں ایک دھرنا قسم کا مظاہرہ ہوا، اس میں بھی لوگ سینکڑوں کے حساب سے تھے۔ کراچی میں بھی سینکڑوں، پنڈی ، اسلام آباد میں بھی سینکڑوں، لاکھوں کا مظاہرہ غالباً لندن یا ہانگ کانگ میں ہوا ہو گا۔ واللہ اعلم
٭٭٭٭٭
گرفتاری کی ایک ”بائی پراڈاکٹ“ یہ سامنے آئی کہ خان صاحب جو بالٹی سر پر پہنا کرتے تھے، اس کا راز تھوڑا تھوڑا کھل گیا۔ عام روایت یہی تھی کہ یہ بلٹ پروف بالٹی ہے جو سر کا نشانہ لے کر چلائی جانے والی گولی کو روک لے گی۔
خان صاحب کو جب اہلکار ہائیکورٹ سے ملحق بائیو میٹرک والے آفس سے گرفتار کر کے لے گئے تو ان کی وہیل چیئر وہیں رہ گئی اور بالٹی جو نیچے گر گئی تھی، کسی نے اٹھا کر اس چیئر پر رکھ دی۔ فوٹو گرافروں نے اس کی قریب سے ویڈیو بنائیں اور یوں پتہ چلا کہ یہ کوئی دھاتی بالٹی نہیں ہے، ایک قسم کے ڈھیلے ڈھالے میٹریل سے بنی ہے، گویا ایک قسم کا تھیلا ہے جس کا بلٹ پروف ہونے سے کوئی تعلق دور دور تک کا نہیں بنتا۔
پھر یہ بالٹی پوشی کس لیے خان صاحب کرتے رہے؟۔ ایک ”کثیر الاشاعت“ روایت کے مطابق اس کا تعلق دراصل روحونیاتی ٹوٹکوں سے ہے۔ نسخہ جس نے بھی دیا (اغلباً گھر ہی سے کسی نے دیا)، اسکی تاکید تھی کہ اتنے دن تک خود کو سورج کی براہ راست روشنی سے بچانا ہے۔ اس ٹوٹکے میں بے احتیاطی ہوئی تو ”انقلاب“ غارت ہو جائے گا۔
ایسا ہے تو انقلاب کو غارت ہی سمجھو کیونکہ گرفتاری کے بعد ان کو کمرے سے نکال کر کھلے آسمان تلے، سورج کی تپتی ، شفاف دھوپ میں ، کم از کم سو گز کے فاصلے تک پیدل چلا کر لے جایا گیا۔ سورج کی روشنی میں خان صاحب نہا گئے۔ روحونیاتی ٹوٹکے کی بری طرح خلاف ورزی ہو گئی۔
ساتھ ہی خان صاحب کو اپنی ٹانگ کے بارے میں جو وہم تھا، وہ بھی دود ہو گیا۔ وہم یہ تھا کہ ٹانگ زخمی ہے، وہ چلنا تو درکنار، ٹھیک سے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہم دور ہو گیا۔
قدیم یونانی حکیم کا قصہ یاد آ گیا۔ ایک صاحب کو وہم ہو گیا کہ وہ شیشے کے بنے ہوئے ہیں، کسی نے انہیں چھو بھی لیا تو چکنا چور ہو جائیں گے۔ بڑے بزرگوں اور نفسیات دانوں نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ صاحب مصر رہے کہ نہیں صاحب، میرا بدن تو شیشے کا بنا ہے، ٹھیس لگنے پر کرچی کرچی ہو جائے گا۔ ایک حکیم نے دعویٰ کیا کہ وہ مریض کو 5 منٹ میں ٹھیک کر دے گا۔ گھر والوں نے خوشی خوشی اسے بلا لیا۔ وہ سمجھے کہ موصوف کوئی جھاڑ پھونک کریں گے یا دماغی تنقیے کا کوئی خیساندہ پلائیں گے جس سے یہ مالیخولیا دور ہو جائے گا لیکن یہ کیا، حکیم صاحب نے آتے ہی ڈنڈا نکال لیا اور ”مریض“ کی دھلائی شروع کر دی۔ چیخم دھاڑا مچ گیا، لوگوں نے حکیم صاحب کو دبوچ لیا کہ بے چارے مریض کی جان لو گے کیا۔ حکیم صاحب نے کہا، اب ان صاحب سے پوچھو، کہ وہ شیشے کے بنے ہیں؟۔ مریض صحت یاب ہو چکا تھا ، اسے پتہ چل گیا تھا کہ وہ شیشے کا ہوتا تو اب تک ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ اس کا جسم ثابت تھا البتہ وہم کرچی کرچی ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
خان صاحب کی گرفتاری القادر ٹرسٹ کیس میں ہوئی ہے۔ کیس کا خلاصہ یہ ہے کہ خان صاحب نے /50 ارب روپے سرکاری خزانے سے ایک پراپرٹی ٹائیکون کو اس کی ”قومی خدمات“ پر خراج تحسین و عقیدت کے طور پر پیش کئے۔ جواباً اس ٹائیکون نے پانچ سات ارب روپے کا ”شکرانہ“ خان صاحب کو پیش کیا۔ ایک نے نذرانہ پیش کیا، دوسرے نے شکرانہ۔ نذرانے شکرانے کے اس بے ضرر تبادلے پر خواہی مخواہی کا کیس ہے اور اب لکھا جا رہا ہے کہ کسی اور وزیر اعظم نے ایسا ماجرا نہیں کیا۔ نہیں کیا تو اب کر دیا، اس میں دقت کیا۔
٭٭٭٭٭