کنکریاں۔ کاشف مرزا
قیام پاکستان کو 75برس اورآئین پاکستان کو50 برس بیت چکےمگروطن عزیز آج بھی عملی طور پر یہ طے نہ کرپایا کہ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنے دائرہ کار میں کیسے سفر کرنا ہے۔بارہا تجربے وخواہش کے پیش نظر کوئی ایک ادارہ اپنے اختیار سے آگے بڑھ کر دوسرے کے امورمیں مداخلت شروع کردیتا ہے جوتاحال جاری ہے۔پاکستان مستقل آئینی بحرانوں سےدوچار ہے،آزادی کے بعد9سال تک1935ءکا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ملک کےعبوری دستور کی حیثیت سے نافذ رہا۔پاکستان 75سالوں میں تقریباً37سال بے آئین رہا ہے،جبکہ 1973ءکے آئین کی گولڈن جوبلی کے50 سالوں میں بھی20سال آئین معطل رہاہے۔بدنصیبی کہ1956ئ، 1962اور 1973ء کے آئین کے ابتدائیہ میں قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947کی آئین ساز اسمبلی کی تقریر جس میں انہوں نے تصور پاکستان بیان کیا، کوکبھی کوئی مقام نہ ملا۔جس ملک کا وجود ہی 1946ءکے آئین کے تحت ہوا ہو وہاں 1973ءکے آئین بنانے تک دوآئین اوردو مارشل لاءآچکے تھے جبکہ آدھا ملک سلور جوبلی سے قبل 1971ءمیں الگ وطن بن چکا تھا۔آج1973ءکے آئین کی اصل شکل بگڑ چکی ہے اور تاحال 26ترامیم ہوچکی ہیں۔بدقسمتی اس آئین کی پہلی خلاف ورزی خود اس کے خالق بھٹو صاحب نے کی اور 24 گھنٹے کے اندرملک میں ایمرجنسی لگا کر بنیادی حقوق سلب کردیئے گئے، اوراپنے اقتدار کی مضبوطی کے لیے آئین میں 7 دیگر ترامیم بھی کیں جو بھٹو کی غلطی تھی، کیونکہ اس میں سے ایک ترمیم جس کا تعلق عدلیہ سے تھا وہ خود ان کے خلاف ثابت ہوئی۔سپریم کورٹ میں مرضی کے ججزرکھنے کی خواہش 1973ءمیں آئین پاکستان کی تیاری کے وقت بھی تھی جبکہ آئین میں عدلیہ کو پہلی بار انتظامیہ سے علیحدہ کرکے خودمختار بنایا گیا۔بھٹو حکومت اس بات پر تو متفق تھی کہ عدلیہ کو انتظامیہ کی ماتحتی سے نکالنا ضروری ہے، مگر عدالت کے دائرہ اختیار پر کچھ کنٹرول بھی ان کی نظر میں بہت ضروری تھا۔گزشتہ غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے محض کرداروں کی تبدیلی کے ساتھ غلطیاں دہرائی جاتی ہیں۔ سنیارٹی کو نظر انداز کرکے اپنے ججز اور جرنیلز لانے کی خواہش تبھی سے چلی آرہی ہے، اسی خواہش نے اس وقت بھی نظریہ ضرورت کی شکل میں ملک کو بحرانوں میں دھکیلا اورآج بھی یہی خواہشیں بحرانوں کا موجب ہیں۔ عدلیہ کی بدترین تاریخ کے موجد جسٹس منیر تھے جنکےالفاظ تھے “Necessity makes lawful which is unlawful” یعنی ضرورت غیر قانونی کام کو قانونی بنادیتی ہے۔ نتیجتاً جنرل ضیاء کے 90 روز الیکشن کا دعویٰ پورا نہ ہوا بلکہ یہ دور11سال تک چلتا رہا۔ غیرجماعتی بنیادوں پر انتخابات سے لے کر من پسند قانونی اصلاحات جنرل ضیا دور کا خاصا رہیں۔ آئین بننے کے بعد کافی عرصے تک عدلیہ بارے تصور تھا کہ عدلیہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرکام کرتی ہے۔
1990ءکی دہائی میں پاکستان کے سیاسی حالات نے عدلیہ کا کردار مرکزی بنا دیا اورلفظ ٹرائیکا Troika کو اہمیت ملی۔ صدر، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے مابین کھینچا تانی واقعات کا مرکز سپریم کور ٹ بنتی رہی۔ 73ءکے آئین نے بنیادی ڈھانچہ فراہم کردیا لیکن وقت کے ساتھ عدلیہ اپنا کردار بدلتی رہی۔ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی وہ سب سے پہلا اختلاف تھا جو پیپلز پارٹی کی طرف سے سامنے آیا،لیکن عدلیہ کوکنٹرول رکھنے کی اس خواہش کورد کر دیا گیا۔ آئین میں درج ہے کہ ججز تعیناتی وزیر اعظم سے مشاورت کے بعد ہوگی، یعنی سفارش کو مشاورت کے لفظ سے تبدیل کردیا گیا۔ عدلیہ کا پہلا بڑا امتحان آئین سازکیس کے حوالے سے تھاجو1977ءمیں جنرل ضیا کے مارشل لا کا نفاذ تھا، جسے بیگم نصرت بھٹو نے184(3)کے تحت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے مارشل لا اور بھٹو سمیت 10 لوگوں کی گرفتاری کو چیلنج کیا۔جسے عدالت نے 10 نومبر 1977ءکو نظریہ ضرورت کو بنیاد بناتے ہوئے نصرت بھٹوکی پٹیشن ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے رد کردی۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھاکہ 1973ء کا آئین اب بھی نافذ العمل ہے صرف اس کے کچھ حصے معطل کیے گئے ہیں جنکا حکم ریاستی مشینری کی طرف سے آیاہے۔ یوں سپریم کورٹ نے جنرل ضیاالحق کے غیرآئینی اقدام کو وقت کی ضرورت گردانا۔اس تباہ کن فیصلے میں نظریہ ضرورت جو عاصمہ جیلانی کیس میں اوورول کیا جاچکا تھا،ایک بار پھر زندہ کردیا گیا۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو کو کینگرو ٹرائل کے ذریعے سزائے موت سنائی گئی، عاصمہ جیلانی کیس سے بھٹو کی پھانسی کے فیصلوں کو درست قرار دینے تک عدلیہ کے اس حصے نے تباہ کن کردار ادا کیا، سوائے کچھ ججز کے جیسے، جسٹس دراب پٹیل،ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔1989ءکے حاجی سیف اللہ کیس میں اگرچہ سپریم کورٹ نے 1987ءاسمبلی تحلیل اور محمد خان جونیجو کا ہٹایا جاناغیر قانونی قرار دیا لیکن نئی حکومت آچکی تھی اس لیے 1987ءکی اسمبلی کو بحال نہ کیا گیا۔1973ءکے آئین نے عدلیہ کو جوڈیشل ریویو کا اختیار تو دیا تھا لیکن اس کا سپریم کورٹ و ہائی کورٹس میں کھلا استعمال قانونی و انتظامی معاملات کےساتھ سیاسی معاملات کو عدالتوں میں لائے جانے سے ہوا۔ایک طرف1990ءاور 1996ءمیں بےنظیر بھٹو کی دو حکومتوں کو آئینی ہتھیار 58-2-B کے تحت گھر بھیجا گیا تو سپریم کورٹ نے اسے جائز قرار دیا،دوسری طرف 1993ءکی نوازشریف حکومت کی تحلیل کو سپریم کورٹ نے بحال کردیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جسے عدالتوں کی جوڈیشلائزیشن آف پولیٹکس کا آغاز سمجھا جاتاہے۔ 1996ءکے الجدید ٹرسٹ کیس میں سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو کی اعلی عدلیہ میں تعیناتیوں پراثراندازہونے کی گنجایش تقریباً ختم کر دی۔1997ءمیں ن لیگ حکومت نے 13ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صدر مملکت سے قومی اسمبلی تحلیل کا اختیار واپس لیا تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ سربراہی بنچ نے ان اختیارات کو بحال کردیا۔ سپریم کورٹ کے ہی ایک اور بنچ جس کی سربراہی جسٹس سعید الزمان صدیقی کررہے تھے، نے چیف جسٹس کے فیصلے سےاختلاف کرتے ہوئے صدر کے اسمبلی توڑنے کے اختیارات کو معطل کرنے کا حکمنامہ جاری کیا۔ آج کے حالات کی طرح تب بھی سپریم کورٹ کے اندر ججز آمنے سامنے آگئے۔سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن کی سربراہی میں2رکنی بنچ نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف انہیں کام سے روکنے کا حکم دیا،اس فیصلے کی توثیق سپریم کورٹ کے 10رکنی بنچ نے کی۔ چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا گیااورجسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ سے فارغ ہوگئے۔ 1999ء کے مارشل لانے سپریم کورٹ کو ایک بارپھر امتحان سے دوچار کردیا۔ میاں نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی اورسپریم کورٹ کے فل بنچ نے، 2000 کے ظفر علی شاہ کیس میں نہ صرف اس غیرآئینی اقدام کی توثیق بلکہ اسے جائز بھی قرار دیتے ایک بار پھرنظریہ ضرورت کوزندہ کردیا۔ 1999ءکے ملٹری انقلاب کے بعد سپریم کورٹ کے بیشتر ججز نےPCOکے تحت حلف اٹھایا جن میں افتخارمحمد چوہدری بھی شامل تھے جوبعدازاں 2005ءمیں چیف جسٹس بنے اور عدلیہ اس دورمیں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر احسن طور پرکام کرتی رہی۔ پاکستان سٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن معاملے پر پرویزمشرف اور افتخارچوہدری کے مابین اختلافات پیدا ہوئے اور غیر آئینی طور پر افتخار چوہدری کو9مارچ 2007ءکو بطور چیف جسٹس معطل کردیاگیا، جسے پرویز مشرف نے بعدازاں اقتداراپنی سنگین غلطی قراردیا۔ کیونکہ آئین کے آرٹیکل 209 کے مطابق اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری اور رپورٹ آنے کے بعد ہی مس کنڈکٹ یا نااہلی ثابت ہونے پر ہی عہدے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ افتخار چوہدری جوکہ خود ایک پی سی او جج تھے، انہوں نے پرویز مشرف کے غیرآئینی احکامات کوماننے سے انکار کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی۔عوام اوروکلا افتخار چوہدری سے اظہاریکجہتی کے لیے نہ صرف کھڑے ہوئے بلکہ ریاست کو چیلنج کردیا،یہ پہلی بارتھا کہ ایک PCOچیف جسٹس نے اپنے بینی فشیئر کا حکم ماننے سے انکار کیاجسے عام پاکستانی عوامی انقلاب سمجھ بیٹھے تھے۔اس دوران 12 مئی 2007ء کو سانحہ کراچی ہوگیا،جس میں کئی قیمتیں جانیں ضائع ہوئیں۔ مشرف طاقت کے نشے میں بے خبر ناجان سکاکہ عدلیہ میں تبدیلی آچکی تھی اورافتخارچوہدری کو آئین کا محافظ اور ایک قومی ہیرو کا درجہ دے دیا گیا تھا،بعدازاں ملک اس عدالتی انقلاب سے ایک بڑے اور تباہ کن عدم توازن کی طرف بڑھا۔ 20جولائی2007ءکو13 رکنی بینچ کے مشترکہ فیصلے نے افتخار چوہدری کو بحال کردیا۔ 2007ء میں اپنی بحالی کے بعد افتخار چوہدری ایک طاقتور چیف جسٹس بنے اور پھر حالات اس نہج تک پہنچے کہ 3 نومبر 2007ء کو مشرف نے ایمرجنسی لگا دی اور نیا پی سی او آیا۔ سپریم کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ کے زیادہ تر ججز نے اب PCO کے تحت حلف نہ لیا البتہ کچھ ججز نے حلف اٹھایا اورجسٹس عبد الحمید ڈوگر نے چیف جسٹس پاکستان کا حلف اٹھایا،اگرچہ پرویز مشرف صدر تو رہے، مگر انہیں آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنا پڑا۔2008ءکے انتخابات کے بعد حکومت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ملکر اقتدارسنبھالا اور بھوربھن معاہدے کے تحت مشرف کا مواخذہ اور 60 ججز کی بحالی کاعمل شروع ہوا،جن کو نومبر 2007ءکی ایمرجنسی کے تحت غیرآئینی طور پر برخاست کیا گیا تھا۔سابق صدرآصف زرداری شروع دن سے اس پر مختلف موقف رکھتے تھے، تناﺅ بڑھا اور مسلم لیگ (ن) وپیپلز پارٹی کی راہیں جُدا ہوگئیں،وجہ افتخار چوہدری اوردیگر ججز کی قومی مفاہمتی آرڈیننس یا این آراو پر قانونی رائے تھی۔زرداری اس معاملے پر مسلم لیگ ن اور وکلا برادری کے موقف سے دور اور افتخار چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی سے گریزاں تھے۔کشیدگی بڑھی اورفروری 2009ءمیں صدر زرداری نے پنجاب میں ن لیگ کےوزیر اعلیٰ شہبا زشریف کو ہٹا کر گورنر راج لگا دیا،آخر کار مارچ 2009ءکو عدلیہ بحالی تحریک نے صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو مجبور کیا کہ افتخار چوہدری اور دیگر معزول ججوں کو بحال کردیا جائے۔افتخار چوہدری بحالی کے بعد کے دور نے پاکستان کے عدالتی نظام کو ہلا کررکھ دیا، یہ جوڈیشل ایکٹوازم کا بدترین دور رہا۔1973ءکے آئین کی شق (3)184 کا بے دریغ استعمال اور بےشمار سوموٹو نوٹسز لیے گئے۔ این آراو کالعدم قرار پایا اور پھر معاملہ سوئس حکام کوخط نہ لکھنے کے جرم میں ایک وزیر اعظم کو توہین عدالت کی سزا تک پہنچا، یوں یوسف رضا گیلانی آرٹیکل 63 کے تحت 5 سال کے لیے نااہل ہوگئے۔بلاشبہ 2010ءکی18ویں آئینی ترمیم ، آئین بننے کے بعد بہت بڑا سنگ میل اورکارنامہ ہے،جس کا سہرا پیپلز پارٹی، رضا ربانی اور سابق صدر آصف زرداری کو جاتا ہے۔مسلم لیگ ن اس دور میں سپریم کورٹ اور افتخار چوہدری کی جوڈیشل ایکٹوازم کی تقلید کرتی رہی یوں 18ویں آئینی ترمیم بھی سپریم کورٹ میں چیلنج کردی گئی۔ ہمیشہ کی طرح سپریم کورٹ کو اعتراض، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پر تھا، کیونکہ پارلیمان کو اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعیناتی میں مضبوط حتمی رول دے دیا گیا۔یہاں بھی آرٹیکل (3)184 کا استعمال کیا گیا اور پارلیمان کو مجبورکرتے ہوئے 18ویں ترمیم پارلیمان کو دوران سماعت دوبارہ بھیج دیا گیا۔ اس معاملے پر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے سپریم کورٹ کے نقطہ نظر کی بھرپورتقلید کی جوبعد ازاں مسلم لیگ ن پر بہت بھاری ثابت ہوئی۔پارلیمان کو مجبوراً 19ویں آئینی ترمیم کے پاس کرنی پڑی اوراعلیٰ عدلیہ میں ججز تعیناتی میں پارلیمانی کمیٹی کا کردار بہت محدود رہ گیا۔اسی سپریم کورٹ میں میمو گیٹ جیسے معاملات بھی ہوئے، مسلم لیگ ن نے ایک بار پھرآصف زرداری کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرگھیرا تنگ کیا۔یوں2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے اقتدار میں آئے جبکہ الیکشن کے نتائج پر تمام جماعتوں نے اعتراض کیا۔ اسی دوران میاں نواز شریف کی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے اورایمرجنسی لگانے کے الزامات پرسنگین غداری کیس میں آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی کاالزام لگایا۔ مشرف کو اپنے ادارے کی حمایت حاصل تھی،فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے 7 اپریل 2014 کوSSG ہیڈکوارٹرز خطاب کرتے ہوے کہا " فوج اپنی عزت اور ادارے کے وقار کی ہمیشہ حفاظت کریگی "۔ پیغام واضح تھا نواز شریف حکومت کو اس کی جو قیمت چکانا پڑی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ تاریخ یہ بھی گواہ ہے کہ آئین کی سربلندی کے لیے ایک طرف جسٹس وقار سیٹھ مرحوم نے آئین کے مطابق ایک آمرکو سزا سنائی تو دوسری طرف نام نہاد جمہوری لیڈروں اور وزرا نے انھیں پاگل اور ذہنی مریض تک کہا۔ جوڈیشل ایکٹوازم کا ایک اورباب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں رقم ہوا،ثاقب نثار نے عدل فراہم کرنے کے علاوہ ہروہ کام کیے جن کا چیف جسٹس کے منصب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔1973ءآئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ عدلیہ، انتظامیہ کے امور میں مداخلت کرے۔ 2016ءمیں پانامہ پیپرز منظر عا م پر آئے، جن میں شریف خاندان کے اثاثوں کا ذکر بھی موجود تھا۔ ڈان لیکس اور آئی ایس پی آر کی رپورٹ کو ریجیکٹڈ کہنے کے بعد نواز شریف کے تعلقات اسٹیبشلمنٹ سے کشیدہ ہوچکے تھے۔ عمران خان نے پانامہ پیپرز معاملے کو سیاسی طور پر بہت جارحانہ طریقے سے کیش کروایا،نوازشریف کو ناصرف فارغ بلکہ پارلیمانی سیاست سے بھی فارغ کرادیا گیا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل F(1)62کے تحت نوازشریف کو تمام ججز نے جے آئی ٹی رپورٹ پرتاحیات نااہل کردیاگیا اوریوں وہ صادق وامین نہ رہے، دلچسپ یہ کہ آرٹیکل 62 اور 63 ذوالفقار علی بھٹو کے بنائے ہوئے 1973ءکے آئین کا حصہ نہ تھے۔ بدقسمتی آج سپریم کورٹ پھرتاریخ کی بڑی عدالتی تفریق کا شکار ہے۔پہلی مرتبہ پارلیمان کی قانون سازی کو نافذ العمل ہونے سے روکنے کیلیے Anticipatory Injunction کااستعمال کیا گیا، جسکا مقصد عدلیہ کی آزادی،سوموٹواور بنچ بنانے کے اختیارات کو محدود کرنے سے روکنا تھا۔ قیام سے لے کرآئین پاکستان کا سفر اور موجودہ آئین پاکستان کی 50 سالہ تاریخ کے دوران پاکستان کی پارلیمان کے ساتھ عدلیہ کا کردار بھی تابناک نہ رہا ہے،زیادہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ملک وقوم اور پارلیمان کے ساتھ ساتھ آئین یاعدلیہ کامستقبل بھی تابناک نظر نہ آتا ہے۔ہمارا آئین بنیادی طور تین رخی طاقت کے فلسفے پر استوار ہے جس سے مراد مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ اپنا علیحدہ وجود رکھتی ہیں اور ان کے دائرہ ہائے کاردستور میں واضح کر دئیے گئے ہیں۔لہذا ضروری ہے کہ آئین کو سپریم مانتے ہوئے مقننہ، انتظامیہ اورعدلیہ اپنے علیحدہ واضح آئینی وجود اور حیثیت میں رہتے ہوئے آئین کے پاسدار ہونے کے ناطے اپنا اہم کردار آئینی حدود میں ادا کریں تاکہ وطن عزیزکوترقی واستحکام نصیب ہو سکے۔