القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی جانب سے پاکستان رینجرز کی معاونت سے پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں نے گھیراﺅ جلاﺅ‘ تشدد‘ تخریب کاری اور توڑپھوڑ کا راستہ اختیار کرکے جہاں ملک میں پہلے سے موجود سیاسی عدم استحکام کو بڑھاوا دیا‘ وہیں ملک کی سلامتی اور سسٹم کے استحکام کو بھی داﺅ پر لگایا۔ ملکی تاریخ کی احتجاجی سیاست میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سکیورٹی اداروں کی حساس عمارات سمیت متعدد سکیورٹی اداروں پر دھاوا بولا گیا اور ان اداروں کی عمارت کے علاوہ سرکاری اور نجی تنصیبات کا بھی حشر نشر کر دیا گیا۔ ہماری سکیورٹی فورسز کی جانب سے یقینا دوراندیشی کے تحت گھیراﺅ جلاﺅ‘ تخریب کاری اور لوٹ مار کا راستہ اختیار کرنے والے پی ٹی آئی کارکنوں کے خلاف ریاستی‘ انتظامی مشینری کو استعمال نہیں کیا گیااور نہ ہی ان کے مظاہروں میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا کی گئی۔ چنانچہ مشتعل مظاہرین پوری سہولت اور اطمینان کے ساتھ سرکاری اور نجی املاک کو نذرآتش کرتے اور عمارات کے اندر گھس کر وحشیانہ انداز میں توڑپھوڑ کرتے رہے جبکہ ان عمارات میں موجود اہم دستاویزات‘ پارچات اور کھانے پینے کی اشیاءتک وہ اٹھا کر لے گئے جن کی پی ٹی آئی سوشل میڈیا سیل کی جانب سے سوشل میڈیا پر نمائش کی جاتی رہی۔ حد تو یہ ہے کہ ان انتشار پسند اور تخریب کار عناصر نے اپنے مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی گزرنے والی گاڑیوں پر پتھراﺅ سے بھی گریز نہ کیا اور جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری کئے گئے فیصلہ میںعمران خان کی گرفتاری کو قانون کے مطابق قرار دیا گیا تو پی ٹی آئی سوشل میڈیا سیل کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بھی توتکار کے انداز میں مہم شروع کر دی گئی۔ حکومت کی جانب سے امن و امان کو کنٹرول کرنے کیلئے پنجاب‘ بلوچستان اور اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کی گئی‘ تاہم مظاہرین کو تشدد اور تخریب کاری سے روکنے کیلئے انتظامی مشینری کو حرکت میں نہ لایا گیا جس سے مظاہرین کو کھل کھیلنے کا موقع ملتارہا جو ریاستی اداروں کے خلاف انتہائی نازیبا نعرے بھی لگاتے رہے۔ گرفتاری کے بعد عمران خان کا پہلے سے ریکارڈ شدہ بیان پی ٹی آئی میڈیا سیل کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے آپ سے دوبارہ مخاطب ہونے کا موقع نہ ملے۔ مجھے ایک ناجائز کیس میں بند کیا جا رہا ہے جس سے ایک چیزواضح ہو گئی ہے کہ ملک میں بنیادی حقوق اور جمہوریت دفن ہو چکی ہے۔ عمران خان کے بقول وہ مرنا قبول کر لیں گے مگر چوروں کی امپورٹڈ حکومت کبھی قبول نہیں کریںگے۔
دوسری جانب وزیراعظم شہبازشریف نے عمران خان کی گرفتاری کے بعد پی ٹی آئی کی مزاحمت اور گھیراﺅ جلاﺅ کی سیاست پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اداروں پر حملے عمران خان کی سیاست ہے جنہوں نے کبھی کوئی قانونی راستہ اختیار نہیں کیا۔ اسی طرح وفاقی وزراءخواجہ محمد آصف‘ رانا ثناءاللہ‘ بیگم مریم اورنگزیب اور اعظم نذیر تارڑ نے بھی پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے اہم سرکاری دفاتر‘ اقامت گاہوں اور سرکاری و نجی تنصیبات کی توڑ پھوڑ اور انہیں آگ لگانے کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے پر سختی سے نمٹا جائے گا۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے بھی گزشتہ روز کابینہ کمیٹی برائے امن و امان اور آئی جی پولیس پنجاب کو ضروری ہدایات دیتے ہوئے باور کرایا کہ ریاست پر حملے میں ملوث کسی شخص کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ ان کے بقول احتجاج کی آڑ میں عوام کے روزمرہ کے معمولات زندگی میں کسی کو بھی خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل مظاہرین کی قیادت کرنے والے پی ٹی آئی کے متعدد عہدیداروں بشمول اسد عمر اور سیدعلی زیدی کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے جبکہ مظاہروں کے دوران گوجرانوالہ‘ کوئٹہ اور لوئر دیر میں تین افراد کے جاں بحق اور متعدد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان کی رہائی تک ملک بھر میں مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ اگر ان مظاہروں میں تشدد‘ تخریب کاری اور گھیراﺅ جلاﺅ کا راستہ اختیار کرنے والے انتشار پسندوں کے ہاتھ نہ روکے گئے اور ریاستی انتظامی اتھارٹی کو بروے کار نہ لایا گیا تو ملک کا خانہ جنگی کی لپیٹ میں آنا بعید از قیاس نہیں۔ سیاست میں تشد اور گھیراﺅ جلاﺅکا عنصر درحقیقت سابق حکمران پی ٹی آئی نے ہی شامل کیا ہے۔ جس کے تحت عمران خان نے 2013ءکے انتخابات کے بعد خود بلیم گیم کا راستہ اختیار کیا اور وہ اپنی تقاریر اور بیانات کے ذریعے لوگوں کو ریاستی اداروں اور پی ٹی آئی مخالف سیاسی قیاتوں کے خلاف عامیانہ الزام تراشی کی ترغیب دیتے اور تشدد‘ تخریب کاری اور گھیراﺅ جلاﺅ کا راستہ اختیار کرنے کیلئے اکساتے رہے۔ انہوں نے خود بھی افواج پاکستان‘ عدلیہ‘ الیکشن کمشن اور پارلیمانی قیادتوں کو بے سروپا الزام تراشی کے ذریعے مطعون کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور منتخب ایوانوں میں بیٹھنے کے بجائے سڑکوں پر دھماچوکڑی مچانے کا راستہ اختیار کیا۔ 2013ءسے 2018ءتک انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر ملک میں افراتفری پھیلانے اور سیاسی عدم استحکام کا راستہ ہموار کرنے کی سیاست کا دامن تھامے رکھا اور 2018ءکے انتخابات کے نتیجہ میں برسراقتدار آنے کے بعد بھی انہوں نے جارحانہ سیاست کا طرزعمل ترک نہ کیا اور اپنے سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو کے لقب دیکر انہیں مسلسل مطعون کرتے رہے جبکہ وہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک صفحے پر ہونے کا تاثر بھی اجاگر کرتے رہے‘ تاہم جب آئینی طریق کار کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو وہ اسٹیبلشمنٹ اور ادارہ جاتی قیادتوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے اور بیرونی سازش کا بیانیہ گھڑ کر ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنا شروع کردیا۔ گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے سے وہ اسی افراتفری والی سیاست پر کاربند ہیں اور اپنے اقتدار اور سیاسی مفادات کی خاطر انہوں نے عدلیہ اور دوسرے ریاستی اداروں میں تقسیم پیدا کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے اس طرز سیاست سے یقینا ان کے پارٹی ورکروں کو بھی حوصلہ ملا جنہوں نے عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک سے منظم ہوکر اور پورے اہتمام کے ساتھ گھیراو جلاو ، سکیورٹی فورسز پر پتھرا اور پٹرول بم پھینکنے جیسی تخریب کاری کا راستہ اختیار کیا جس کی انتہا گزشتہ روز کے گھیرا جلاو کی صورت میں سامنے آئی۔
یہ سیاست یقینا ریاستی اتھارٹی اور حکومتی گورننس کو چیلنج کرنے کی سیاست ہے جس پر لامحالہ قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔ عمران خان کے بقول ان کے خلاف مقدمات کی ڈبل سنچری ہونے والی ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مقدمات جھوٹے ہیں تو ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی بجائے انہیں قانونی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کرنا چاہئے جس میں انہیں پہلے بھی غیر معمولی طور پر ریلیف ملتا رہا ہے۔ اب اگر ان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے تو وہ اپنے خلاف مقدمات کا قانون کی عدالتوں میں دفاع کریں۔ کوئی مقدمہ جھوٹا ہوا تو وہ انصاف کی عملداری میں سرخرو ہو جائیں گے اور ان کی سیاسی مقبولیت بھی مزید بڑھے گی۔ تاہم انہوں نے ریاست اور ریاستی اداروں سے ٹکرانے کا راستہ ہی اختیار کئے رکھا اور اپنے کارکنوں کو تشدد، تخریب کاری اور گھیراوجلاو کےلئے ہی اکساتے رہے تو قانون کا راستہ ایسی جماعتوں اور تنظیموں کو کالعدم قرار دینے والا ہی ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں عمران خان اور پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل اندھیرے میں ڈوب سکتا ہے جبکہ یہ سیاست دشمن کو ملک کی اندرونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دینے کے بھی مترادف ہے۔ ملک کو درپیش موجودہ اندرونی و بیرونی چیلنجوں میں کیا ہم ایسی سیاست کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ اگر عمران خان کو اپنی سیاست اور سسٹم کو بچانا ہے تو انہیں آئین و قانون کی تابعداری اور عملداری کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ انہیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ریاستی اتھارٹی ملکی اور قومی مفاد میں کبھی مصلحت سے کام لیتی ہے تو وہ کمزور ہرگز نہیں ہوتی۔