پاکستان اپنے مسائل پر قابو پانے کے لیے روس سے سستا تیل خریدنا چاہتا ہے لیکن یہ بات امریکا کو قابلِ قبول نہیں ہے کیونکہ اسے یہ لگتا ہے کہ یوں پاکستان اور روس کے درمیان قربت بڑھے گی جس سے پاکستان کا امریکا پر انحصار بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ اسی لیے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سستے ایندھن کے حصول کے لیے مختلف ملکوں کے مسائل کو سمجھتے ہیں لیکن تیل کی سپلائی کے لیے روس قابل بھروسا نہیں۔ دوسری جانب، وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ جہاں سے سستا تیل ملا ہم خریدیں گے۔غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویومیں روس سے تیل خریدنے سے متعلق سوال پر مصدق ملک نے کہا کہ اگر ہمیں آج کہیں سے بھی سستا تیل ملے تو پاکستان وہیں سے تیل خریدے گا۔ فی الحال پہلی کھیپ آنے پر جائزہ لیں گے کہ روسی تیل کس قدر ضروریات پوری کرتا ہے۔ وزیر مملکت نے بالکل درست کہا ہے کہ ہمیں اپنی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمیں تیل کہاں سے سستا مل رہا ہے۔ اگر ہم امریکا یا کسی بھی اور ملک کے دباو میں آ کر ایسے فیصلے کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے معاشی مسائل میں مزید اضافہ ہوتا ہے تو یہ ہماری اپنی ہی نااہلی تصور کی جائے گی۔ پاکستان نے گزشتہ پون صدی کے دوران مختلف مواقع پر امریکا ساتھ دیا ہے اور وہ آئندہ بھی امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ امریکا کی وجہ سے ہم دوسرے ممالک سے منہ موڑ لیں یا امریکا سے تعلقات خوشگوار رکھنے کے لیے اپنے اقتصادی بوجھ میں مسلسل اضافہ کرتے جائیں۔ پاکستان کو ایک خود مختار ملک کے طور پر ایسے فیصلے کرنے چاہئیں جو اس کی ضروریات اور قومی سلامتی کے تقاضوں سے مطابقت رکھتے ہوں۔