لندن میں شاہ چارلس سوم کی بادشاہت کے سلسلہ میں منعقدہ تاجپوشی کی تین روزہ تقریبات گزشتہ روز اختتام پذیر ہو گئیں۔ ان تین روزہ تقریبات میں دنیا بھر سے سربراہان مملکت اور دولت مشترکہ کے ممالک سے اہم ترین شخصیات کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات کہ سعودی عرب‘ بھارت اور ترکیہ سمیت کئی ممالک کے سربراہان اس تاریخی تقریب میں شرکت نہ کر سکے تاہم ہمارے وزیراعظم محمد شہبازشریف ان دو ہزار خصوصی مہمانوں میں شامل تھے جنہیں شاہ چارلس کی تاجپوشی کیلئے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستانی وزیراعظم تاجپوشی کی تقریب سے تین روز قبل پاکستان ایئرفورس کے خصوصی طیارے سے لندن پہنچے جہاں برطانیہ میں ہمارے ہائی کمشنر معظم احمد خان‘ ڈپٹی ہائی کمشنر ڈاکٹر فیصل فسٹ سیکرٹری برائے پریس منیر احمد‘ ملٹری کے اعلیٰ افسران اور برطانوی وزارت خارجہ کے سیکرٹری کے خصوصی نمائندے مسٹر ڈیوڈ گورڈن مکالائیڈ نے ان کا والہانہ خصوصی استقبال کیا۔ تاجپوشی تقریب سے قبل 5 مئی کو وزیراعظم محمد شہباز شریف نے دولت مشترکہ سیکرٹریٹ میں دولت مشترکہ کے رہنماﺅں کے اجتماع میں شرکت کرتے ہوئے اپنے خطاب میں شاہ چارلس کو مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے برطانوی وزیراعظم رشی سنک اور کامن ویلتھ کی سیکرٹری جنرل پیٹریشیا سکاٹ لینڈ سے بھی ملاقات کی۔
شاہ چارلس سوم کی تاجپوشی کی 6 مئی کی تقریب کو دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے آئے سیاحوں اور برطانوی عوام کی ایک بڑی تعداد نے 5 مئی کی رات ہی بکنگھم پیلس کے اطراف میں اپنے ہوٹل بک کروالیے تاکہ اگلی صبح انہیںشاہ چارلس اور انکی اہلیہ ملکہ کنسورٹ کمیلا کو شاہی بگھی میں روانہ ہوتے دیکھا جاسکے۔ تقریب کا انعقاد ویک اینڈ میں رکھا گیا تھا اس لئے وسطی لندن کی کئی مشہور شاہراہیں بند کرنا پڑیں تاہم پارلیمنٹ سکوائر‘ وائٹ ہاﺅس اور دی مال کے علاقوں کو کھلا رکھا گیا تاکہ تاجپوشی کی تقریب کو سڑکوں کی دونوں اطراف دیکھ سکیں۔ اس تقریب کا سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ برطانیہ کی نئی نسل کو برطانیہ میں پہلی مرتبہ Queen کے بجائے 70 برس بعد King III کی تاجپوشی دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ 1066ءسے شروع ہونیوالے تاجپوشی کے اس سلسلہ میں شاہ چارلس سوم 40ویں شاہی حکمران بنے ہیں جن کی تاجپوشی Westminister Abbey میں ہوئی اور یوں اس کیتھیڈرل میں ایک ہزار سال قدیم رسم و رواج پر عمل کیا گیا۔ بادشاہ چارلس کے ویسٹ منسٹر پہنچنے کے روٹ کا چونکہ پہلے ہی انتخاب کیا جا چکا تھا اس لئے شاہ چارلس کی سکیورٹی اور حفاظت پر مامور 200 اہلکاروں میں سے خصوصی دستہ ہاﺅس ہولڈ کیولری سے لیا گیا۔ علاوہ ازیں راستوں پر ایک ہزار سے زائد پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے اہلکار تعینات رہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق 29 ہزار اہلکاروں نے یہ ڈیوٹی سرانجام دی۔
بکنگھم پیلس سے جلوس ٹھیک 10 بجکر 20 منٹ پر ٹریفالگر سکوائر‘ وائٹ ہاﺅس‘ پارلیمنٹ‘ سکوائر اور براڈ سینکچوری سے ہوتا ہوا ویسٹ منسٹر ایبے کے مغربی دروازے پر پہنچا جہاں شاہ چارلس اور ملکہ کنسورٹ کمیلا کو چھ سفید گھوڑوں سے چلنے والی گولڈ شاہی بگھی سے اتارا گیا۔ بکنگھم پیلس سے ”ویسٹ منسٹر ایبے“ کیتھڈرل تک تمام شاہراہوں کو برطانوی اور دولت مشترکہ ممالک کے پرچموں سے سجایا گیا جن میں پاکستان کا پرچم اور تاجپوشی کی اس تاریخی تقریب میں پاکستان سے آیا۔
شاہی خاندان کے تمام افراد نے اس تاریخی تقریب میں شرکت کی تاہم شاہ چارلس کے چھوٹے بیٹے پرنس ہیری اپنی اہلیہ ”میگھن مارکل“ کے بغیر اس تاریخی تاجپوشی میں شریک ہوئے۔ یاد رہے پرنس ہیری اپنے خاندان میں ناچاکی کی بنا پر اپنے والد اور بڑے بھائی ولیم کے اب زیادہ قریب نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاجپوشی سے قبل اور تاجپوشی کے اختتام کے بعد وہ شاہی بگھی کے ساتھ نہیں گئے اور یوں اگلے 24 گھنٹے کے بعد وہ امریکہ کیلئے روانہ ہو گئے۔ شاہ چارلس کو جو تاریخی تاج پہنایا گیا‘ اس میں نیلم‘ یاقوت اور دیگر 144 ہیرے‘ جواہرات اور پتھر جڑے ہیں۔ تاج 30 سینٹی میٹر لمبا جبہ وزن 2 کلوگرام ہے۔ تاجپوشی کی اس تقریب میں برطانوی مسلح افواج کے تقریباً چار ہزار جوانوں اور افسران نے حصہ لیا جبکہ اس تقریب میں شامل کیبنٹ منسٹر پینی مورڈنٹ کے مرکزی کردار ادا کرنے پر انکے پہنے ماڈرن لبات پر بھی مبینہ طور پر بعض پارلیمنٹ ارکان نے سوال اٹھائے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے کیلئے شاہی بگھی میں بیٹھے شاہ چارلس اور ملکہ کنسورٹ کمیلا کی روانگی پر بادشاہت کیخلاف بعض افراد نے مبینہ طور پر یہ نعرے لگا کر ”ہمیں بادشاہ نہیں چاہیے۔تاجپوشی تقریب کا آخری منظر بکنگھم پیلس کی بالکونی میں شاہ چارلس ملکہ اور شاہی خاندان کے قریبی افراد کا ہزاروں افراد کو ہاتھ ہلا کر شکریہ ادا کرنے اور فضائی دستوں کی سلامتی کا تھا۔ جس کی دنیا بھر سے آئے میڈیا نے کوریج کی۔ یہ بھی یاد رہے کہ بکنگھم پیلس کی بالکونی میں شاہی خاندان کے آنے کا سلسلہ 1902ءمیں بادشاہ ایڈورڈ ہفتم کی تاجپوشی سے شروع ہوا تھا۔