مروہ خان میرانی
marwahkhan@hotmail.com
ہم لوگ تمام زندگی یہ جملے سنتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں اور اکثر و بیشتر یہ جملے ہمارے ارد گرد ہی رہتے ہیں۔ کہ انسان کی فطرت کبھی بدل نہیں سکتی، اس کی فطرت میں یہ چیز شامل ہے وہ کبھی نہیں بدلے گی"- اور تو اور اکثر اگر کسی انسان سے کوئی غلط کام، ظلم یا کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے بدلے میں یہ سننے کو ملتا ہے کہ فلاں کو تو اللہ کبھی نہیں بخشے گا۔ اس کی حرکتیں ہی ایسی ہیں۔۔۔
یہ الفاظ استعمال کرتے وقت ہمیں اس جملوں کے پیچھے چھپے اللہ کے جلال کا بالکل اندازہ نہیں ہوتا۔ اگر ہو جائے تو ہم اپنی زندگی میں کبھی بھی یہ الفاظ اپنی زبان سے نہ ادا کریں۔
لفظ "فطرت" کو ہم دو طرح سے جانتے ہیں۔ ایک یہ کہ فطرت قدرت کو کہتے ہیں اور دوسری فطرت جس کو ہم جانتے ہیں وہ انسان کی طبیعت ہے۔
فطرت کے اردو معنی قدریتی طور پر پیدا کی ہوئی کائنات، قدرت، نیچر، قدرتی حالات، قانونِ قدرت، دانائی، عقلمندی، ہوشیاری، دین، سنت وغیرہ ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے:
"لہذا تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم رکھو۔ اللہ کی بنائی ہوئی اس فطرت پر چلو جس پر اس نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی یہی سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"- (سورہ روم: 30)
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" ہر بچہ فطرت (صرف ایک اللہ کی عبادت) پر پیدا ہوتا ہے اور اسے ماں باپ اسے یہودی، نصاری یا مجوسی بنا دیتے ہیں". (بخاری)
اسلام کو اسی لیے دین فطرت کہا جاتا ہے کیونکہ ہر انسان توحید کی فطرت پہ پیدا ہوا ہے۔
"اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے"۔ (سورہ اعراف: 172)
قرآن کی رو سے یہ جملہ کہ انسان کی فطرت نہیں بدلتی حقیقتا درست ہے۔
فطرت نہ بدلتی ہے نہ بدل سکتی ہے بلکہ صرف اپنی اصل کی طرف واپس جڑ سکتی ہے۔ کیونکہ یہ رب تعالیٰ کی بنائی ہوئی ہے اور فطرت کو اپنی اصل سے جوڑنے کا واحد طریقہ دین اسلام پہ چلنا ہے۔ فطرت جب اپنے اصل سے ا±کھڑے گی تو بھٹک جائے گی۔ اور فطرتاً چین اللہ کے ساتھ ہے اور بھٹکنے میں بے چینی ہے۔
"فطرت کی پیروی اس طرح کرو کہ تم نے اسی اللہ سے لو لگا رکھی ہو اور اس سے ڈرتے رہو اور نماز قائم کرو اور ان لوگوں کے ساتھ شامل نہ ہو جو شرکتگاف کرتے ہیں"- (سورہ روم: 31)
اسلام کو اللہ نے دین فطرت قرار دیا ہے۔ کسی بھی انسان کو یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس کی عادت، خصلت، خباثت، شر، برائی، خرابی ٹھیک ہی نہیں ہو سکتی۔ اسکا اختیار صرف اس ذات کے ہاتھ میں ہے جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے۔
اس کی مثال حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک واقعے سے لے سکتے ہیں۔
مکی دور میں جب قریش کے ظلم و ستم سے تنگ آکر مسلمانوں نے اپنی پہلی ہجرت حبشہ کی طرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ طبرانی میں یہ واقعہ بیان ہے ایک صحابیہ ہجرت کے لیے اپنا سامان اکٹھا کر رہی تھی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو تو انہوں نے بتایا کہ ہم مکہ چھوڑ کے جا رہے ہیں جس پہ حضرت عمر فاروق نے کہا کہ کیا حالات اتنے برے ہو گئے ہیں کہ تم لوگوں کو ہجرت کرنی پڑ رہی ہے؟ جس پہ صحابیہ نے سخت جواب دیا کہ تمہاری وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے۔ یاد رہے کہ اس وقت حضرت عمر فاروق مسلمان نہ تھے اور قریش کے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے مسلمانوں کی زندگی عذاب کی ہوئی تھی۔ بجائے اس جواب پر حضرت عمر غصے میں آتے الٹا انہوں نے ان کو دعا دی کہ اللہ تمہارے ساتھ ہو۔ جس پہ صحابیہ بہت حیرت زدہ ہوئیں۔ گھر جا کے انہوں نے اپنے شوہر کو اس بارے میں بتایا کہ انہوں نے عمر میں مسلمانوں کے لیے تھوڑی سی ہمدردی محسوس کی ہے۔ ان کے شوہر خضرت عامر ابن ربیعہ رضہ نے یہ سن کے جواب دیا۔
"واللہ! عمر کے باپ کے گھر کے گدھے اس سے پہلے اسلام قبول کر لیں گے"۔
یعنی کس حد تک انہیں یقین تھا کہ ان کا مسلمان ہونا نا ممکن ہے۔
سبحان اللہ! اللہ کی قدرت دیکھیں کہ اچانک ایک دن حضرت عمر نے اسلام قبول کر لیا وہ بھی تب جب وہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے انتہائی غلط ارادہ لے کر نکلے تھے۔
حضرت یونس علیہ السلام بھی اپنی قوم سے نا امید ہو گئے کہ یہ سوچ کر کے یہ لوگ ہدایت نہیں پا سکتے مجھے کسی اور جگہ جا کر لوگوں کو تبلیغ کرنی چاہیے۔ علاقہ چھوڑ دیا اور اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا۔ پھر اللہ سے معافی حاصل کر کے وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے جہاں وہ سب ہدایت یافتہ ہو چکے تھے۔
ہدایت کبھی بھی کسی کو اللہ سبحانہ و تعالی ایک لمحے میں عطا کر سکتے ہیں جس کی ایک اور مثال حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا اپنی شدید ترین غصے کی حالت میں اسلام قبول کرنا تھا۔
اللہ سبحانہ و تعالی کو یہ بات پسند نہیں آتی کہ کوئی بھی بندہ کسی دوسرے بندے اور اللہ کے تعلق کے درمیان مداخلت کرے۔
آپ دیکھیں گے کہ اگر کسی انسان کو پوری کائنات میں کوئی چیز صحیح کر سکتی ہے تو وہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت و پیروی ہے۔ جو اس کو شر سے خیر، بدی سے نیکی، گناہ سے ثواب اور غلط سے صحیح کی طرف لے جاتی ہے۔
حضرت علی رضہ کا قول ہے کہ:
" اگر کسی کی فطرت دیکھنی ہو تو اس کو آزادی دے دو"۔
آزادی سے ہی پتہ چلتا ہے کہ خود سے انسان نیکی کی طرف مائل ہے یا بدی کی طرف-
اب دوسری طرف جو جملے ہم استعمال کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندے کو کبھی بھی نہیں بخشے گا۔ استغفار اللہ!
تو ہم مسلمانوں کو جھنجھوڑنے کے لیے ضرورت سے زیادہ یہ واقعہ کافی ہے جس کو جان کر مسلمان زندگی بھر ایسے الفاظ کبھی اپنے منہ سے نہیں نکال پائے گا۔
جنگ احد میں جب کافروں نے مسلمانوں پہ حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں حضور نبی کریمﷺ بھی برے طریقے سے زخمی ہوئے کہ آپ کے چہرےِ مبارک سے خون آپ کی داڑھی مبارک تک بہہ رہا تھا۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضور ﷺ کے منہ مبارک سے زخمی اور درد کی شدت سے چند سخت الفاظ نکلے جس کا مفہوم ایسے ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کیسے ان کو بخش سکتا ہے؟ جب کے انہوں نے اللہ کے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔
جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن کی یہ آیت نازل فرمائی۔
"اے پیغمبر ! تمہیں اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں"۔
(سورہ ال عمران: 128)
اس قرآن کی آیت نازل ہونے کے بعد محمد نے فرمایا: "اے اللہ! میرے لوگوں کو معاف کر دے یہ نہیں جانتے"-
تصور کیجئے اگر اللہ سبحانہ و تعالی اپنے محبوب اور پیاری ترین ہستی کو ان سخت الفاظ میں ان کے اس جملے کی نفی کر سکتے ہیں تو ہم اور آپ اپنے بارے میں کیا سوچ سکتے ہیں؟
ہماری عقل اللہ کی حکمت کو چاہ کے بھی نہیں سمجھ سکتی۔
اسی جنگ احد میں ہی کفار کے جس شخص سے مسلمانوں کو بے تحاشہ جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا، وہی شخص بعد میں"سیف اللہ" قرار پایا. جس کا علم صرف اللہ کو تھا اور پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ سے مسلمانوں کو مستقبل میں بہت ساری فتوحات نصیب ہوئیں۔
ہم غلط کام کو غلط، ظالم کو ظالم اور بدی کو بدی کہہ سکتے ہیں مگر اس سے زیادہ ہمارا اختیار نہیں کہ ہم یہ کہیں کہ ان کی وجہ سے وہ شخص بخشا نہیں جائے گا۔
حضرت علی رضہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
"اگر کسی کو رات میں گناہ کرتے ہوئے دیکھو تو کل اسے گناہ گار نہ سمجھو۔ ہو سکتا ہے اس نے رات کو توبہ کر لی ہو اور تمہیں معلوم نہ ہو"۔ سبحانہ اللہ
اگر کوئی شخص آپ کے ساتھ برا کرے یا ظلم کرے تو آپ اس بات کو دل کی حد تک ہی رکھیں اس کو زبان پہ نہ آنے دیں۔
کیونکہ حدیث مبارکہ ہے اللہ تعالی نے میری امت کے لیے ان خیالات کو معاف کر دیا جو ان کے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں جب تک کہ ان پر عمل نہ کر لیں یا زبان سے ادا نہ کر دیں"- (صحیح)
ہمیں زندگی میں اپنی زبان سے الفاظ بہت سوچ سمجھ کے ادا کرنے چاہیے کیونکہ بعض اوقات ان کی ادائیگی کی وجہ سے ہماری زندگیوں سے برکت مٹ جاتی ہے اور ہمیں اس کی سنگینی کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ اللہ کی ناراضی کا باعث بن رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جب ابن ادم صبح کرتا ہے تو سارے اعضاءزبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر۔ ہم تجھ سے متعلق ہیں اگر تو سیدھی رہے تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے"۔ (ترمذی)
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں دین کو صحیح معنی میں سمجھنے اس پہ عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے جو کہ آخرت میں ہمارے پیارے نبی کی مسرت کا باعث بن سکے۔ آمین ثم آمین