شاز کی آواز شاز نامہ 

شاز ملک
کشف السجود
پاک محبت کا سفر ازل سے ہی کتنا خوبصورت رکھا گیا ہے۔۔ رب تعالی کی محبت دل دماغ اور روح کو سکون اور پاکیزگی بخشتی ہے۔۔ تب بے اختیار 
بندگی کے اظہار میں سجدے جسم دل نگاہ دماغ روح پر واجب ہو جاتے ہیں 
میں محبت کے سفر میں اپنا سفر سجدے سے شروع کر چکی ہوں ازل سے میری روح اپنے رب کی محبت میں سرشار سجدے میں پڑی رہتی ہے۔۔
محبت عشق ایمان میرا سجدہ ہے۔۔ میں سجدے کے تصور کے بناءعبادت کو ادھوارا محسوس کرتی ہوں۔۔ رب تعالی کے قدموں میں سجدہ ریز ہو کر ازلی سکون طمانیت روحانیت کو پا لیتی ہوں۔۔ جب کائنات پر نظر جاتی ہے تو رب کی عطا و رضا سے دیکھتی ہوں پوری کائنات حالتِ عبادت میں ہے 
فرشتے جنات عبد شجر حجر سورج چاند ستارے سیارے کوئی حالت قیام میں کوئی رکوع میں کوئی سجدے کوئی قعدے میں۔۔ مست و الست۔۔
 اور پھر خود کو دیکھتی ہوں جسے رب کی محبت میں عبادت اور بندگی کے اظہار کے±لئیے سجدے کی محبت عطا کر دی گئی۔۔سکون قرار چین راحت دولت محبت بس سجدہ بس سجدہ اور بس سجدہ۔۔ ایسے عالم میں دل سے یہ آرزو نکلتی ہے یارب۔۔ اس زندگی میں تیری بندگی میں سجدہ عطا ہوا ہے۔۔ رب تعالی یہ نعمت موت کے بعد بھی جاری و ساری رکھنا۔۔ میں قبر میں اتر کر بھی حالت سجدہ میں رہوں یارب ایسا کر دے۔۔ میں میری روح ازل سے تیرے قدموں میں سجدہ ریز ہے۔۔ جسم دنیا داریوں کو نبٹا کر بس تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہونا چاہتا ہے۔۔ تو نے سجدے میں میری محبت بندگی کو قبولیت کا شرف بخشا۔۔ مولا تو ہر شئیے پر قادر ہے۔۔ موت کے بعد میری قبر کو مجھ گناہ گار کے لئیے سجدے کے لئیے عبادت گاہ بنا دینا جیسے میرے دل کو تو نے اپنے رحم و کرم اور عطا سے اپنی عبادت کے لیے درگاہ بنا دیا۔۔ 
ویسے ہی مجھے قبر میں حالت سجدہ نصیب فرما دینا میری قبر کو میری عبادت گاہ بنا دینا جہاں سفید کفن میں لپٹ کر میں قیامت تک صور پھونکےکے جانے تک سجدے میں مست و الست رہوں۔۔۔ 
بڑا ہی عجیب مگر خوبصورت رازِ قدرت ہے۔۔ اس پار سے ا±س پار کے سفر کی بات ہے یہ تو عشق کی فقط اک گھات ہے۔۔۔ انوارِ محبت کی جن دلوں پر برسات ہے۔۔ بس وہی جان سکتے ہیں کہ تہائی شب کے قیام رجوع و سجود میں ہی شش جہات ہے۔۔۔عجز کے سجدے میں سمٹی پوری کائینات ہے۔۔ کون جانے کہاں وجود اور کہاں ذات ہے۔۔ کہیں تحیر ہے۔۔کہیں تغیر ہے کہیں یقین اور کہیں گمان کی گھات ہے۔۔۔۔بندآنکھوں میں پنہاں ساری کائنات ہے۔۔۔ دل میں سمایا سماوات ہے۔۔ مگر نگاہ دل دماغ روح کی طلب تو فقط بس اک وہی پاک لافانی ذات ہے۔۔ جسکی بارگاہ میں جھک کر ہی سکونِ قلبی نصیب ہوتا ہے۔۔۔ آنکھ سے بہتے اشکِ ندامت 
دل پر لگے داغِ ندامت اور سپید روح پر لگے گناہوں کے بدنما دھبوں کو دھوتا چلا جاتا ہے۔۔جسم کا ہر عضو توبہ کے اشکوں سے با وضو ہوتا ہے تو۔ دل پاک ہو کر اپنی پاکیزگی کی نورانیت کے ہالے میں لپٹتا چلا جاتا ہے اور زبان محبت بھرے ذکر نورانی کے نور میں تر بتر ہو کر ذکر کی لطافت حاصل کرتی ہے تب روح بھی اپنی روحانیت واپس لے پاتی ہے۔۔ دنیا داریوں کی کثافت سے غلاظت سے دھل کر پاک ہوتی ہے۔۔ رحمتِ الٰہی کے مقدس حصار میں آ کر پھر سے روحانی نورانی اور آسمانی ہو جاتی ہے۔۔۔پھر زمین پر سجدہ ریز جسم فلک تک رسائی حاصل کرتا ہے۔۔ اور پھر یوں طلب کا کاسہ بھرنے± لگتا ہے۔۔ عاشقانِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عاشقی رب تعالی کو پسند آ جاﺅ ور فدایانِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ا±ن کی محبت قبولیت کی سند پا جاﺅ تو ان کی چاہت پوری ہوتی ہے ان کی قبر یں ھی عبادت گاہ بن جاتی ہے ...قبر کی مٹی ان کے لیے جاﺅ نماز بن جاتی ہے۔۔ اور وہی قبر انکی دل درگاہ جیسی عبادت گاہ بن جاتی ہے۔۔ ان کے معمولات عبادات وہی رہتے ہیں۔۔ وہی عبادات وہی سجدے رب کی عطا و رضا سے قبر میں بھی ادا ہوتے ہیں۔۔۔ بس وہ دنیا کی نظر سے اوجھل کر دئے جاتے ہیں۔۔۔ 
پاک ہے وہ رب جس کی اطاعت جسکی محبت عام انسان کو بھی خاص بنا دیتی ہے۔پھر وہ اپنے ظاہری تن میں نورانی لہروں کو چھپاﺅ جدہر جاتے ہیں مرکزِ نگاہ بن جاتے ہیں۔جنات۔نباتات حیوانات جمادات سماوات ان کی روحانی خاص مہک کو محسوس کرتے ہیں۔۔کائناتی ساری مخلوق فرشتے و جنات جن کی ارواح رب کی بندگی ادا کرتے ہوئے سجدے میں مسحور رہتی ہیں۔ ان کی زیارت کرنے آتے ہیں اور پھر خوش ہو کر ان کو یہ دعا دیتے ہوئے جاتے ہیں کہ رب تعالی اس خاکی بشر کی عبادات قبول فرما کر اس کے درجات بلند فرما آمین یا رب± العالمین سبحان اللہ سبحان اللہ
ندامت سے بھری آنکھوں کا اشکوں سے سجا سجدہ
بڑا محبوب ہے رب کو یہ اپنے عبد کا سجدہ
اگر نیکی کوئی معراج پا جائے تو پھر قسمت
کیا کرتی ہے بندے کو عقیدت سے بھرا سجدہ
مجھے دنیا تری وحشت سے ڈرنے کی ضرورت کیا
میسر ہے مجھے جب زندگی میں رہنما سجدہ
کوئی تو بات تھی ایسی کوئی تو راز ہے اس میں
فرشتوں کو کہا رب نے کرو تم سب ادا سجدہ
جبیں کو ہو عطا جب فکر کا اور ذکر کا جذبہ
ادا کرتی ہے تب یہ روح بھی نایاب سا سجدہ
یہ میری روح دل درگاہ میں مسحور ہے کیونکہ
مری اس روح نے اب عشق میں ڈھل کر کیا سجدہ
ہوا پھر یہ کے مجھ پر کھل گئے نایاب یہ رستے
جبینِ روح کا جب بے خودی میں ہو گیا سجدہ
طلب ہے اب فقط اتنی کہ خود کو بھول جاو¿ں اور
عبادت میں مگن ہو کر کروں میں شکر کا سجدہ
قیامت تک رہوں میں شاز بس مدہوش سجدے میں
"مرے ایمان کی تکمیل میرا عجز یا سجدہ"
 شاز ملک

ای پیپر دی نیشن